کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 23
ہیں اور کچھ وہ ہیں جو فرائض مالیہ کی حد تک پوری دیانت داری اور خوش دلی کا ثبوت دیتے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں جو سارا گھر سمیٹ کر راہِ خدا میں جھونک دیتے ہیں اور قرار پاتے ہیں مثلاً حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے۔ اور کچ وہ بھی ہیں جو چیز ان کو بہت اچھی لگتی ہے اسے وہ خدا کی راہ میں خرچ کر کے ہی چین پاتے ہیں۔ اور یہ وہ سٹیج ہے کہ جہاں سوشلسٹ مزاج جیسے رنگیلوں کے پَر جلتے ہیں، وہ مساوات کے نام پر دنیا سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اپنے مال سے آدھا ہمیں بھی دو، لیکن وہ یہ بھی کہیں کہ: ہم سے یہ وافر ہے یا ہمیں یہ سب سے زیادہ محبوب شے ہے، اس لئے خدا کی رضا کے لئے دیتا ہوں ؎ ایں خیال است محال است و جنوں انہوں نے مساوات کے مسئلے تو صرف لوگوں سے بٹورنے اور اپنا گھر بھرنے کے لئے گھڑ رکھے ہیں ورنہ ان کو خدا یا خلقِ خدا سے کیا واسطہ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ساری دنیا سے بڑھ کر خدا، رسول، قرآن اور عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ خدا ان کو سمجھے۔ بہرحال ہمارے نزدیک ’خُذِ الْعَفْو‘ سے مراد ’درگزر‘ کا شیوہ اختیار کرنا ہے۔ اگر اس کے معنی ’مال زائد‘ ہی کیے جائیں تو پھر اس سے مراد عام صدقات ہیں، جبری ٹیکس یا جبری جیب تراشی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے حضور نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں، وہ خدا کے شایانِ شان، عمدہ سے عمدہ شے دینی شرط یہ ہے کہ جو دیں، تاوان سمجھ کر نہ دیں، خوش دلی سے دیںِ اور دل پر پتھر رکھ کر نہ دیں بلکہ نہایت حضورِ قلب کے ساتھ پیش کریں، جس میں ان کو آسانی بھی محسوس ہو۔ یہ آیت پاک بہرحال سوشلسٹوں کے ناپاک اغراض اور جذباتی افکار کا ماخذ نہیں بن سکتی جو بناتے ہیں وہ قرآن سے بے خبر ہیں یا بد نیت، ان کا صحیح علاج یہ ہے کہ ان کا مقاطعہ کیا جائے اور وزیر اعظم سے درخواست کی جائے کہ ان کو ہمارے قرآن سے کھیلنے سے روکیں۔ اور جو ان کا مقام ہے، ان کو اسی پر رکھیں۔ مسلمانوں کی طرح سیدھے طریقے سے قرآن کا نام لیں یا کوئی اور دھندا کریں، قرآن کی تحریف سے بہرحال ان کو روکا جائے۔ (ب) بے نماز سیاسی لیڈر: یہ سوال کہ جو سیاسی لیڈر بے نماز ہو اسے اپنا رہنما بنایا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ سوال کرنے کا نہیں تھا، یقین کیجئے! یہ سوال پڑھ کر ہمیں بڑا دکھ ہوا ہے کیونکہ کبھی ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ آج شاید ہمیں اس کے لئے بھی کچھ گنجائش نظر آنے لگی ہے۔ فلیبک من کان باکیا۔ یقین کیجئے! بالکل نہیں، بالکل نہیں، بالکل نہیں! جو بنا لیتے ہیں۔ ان کی آخرت بڑی خطرے میں ہے بلکہ دنیا بھی۔ خسر الدنیا والاخرۃ۔ ہمارے نزدیک یزید اور حجاج بہت بدنام سیاسی لیڈر ہیں لیکن بے نماز وہ بھی نہیں تھے، اگر وہ بے نماز