کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 22
کہا کہ ہم کو معلوم نہیں کہ ہم اپنے مالوں میں سے کیا خرچ کریں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
گویا کہ اس کے یہ معنی نکلے کہ: آپ کو جو مال زیادہ بہتر معلوم ہو، وہ خدا کی راہ میں دو۔ فہو المراد۔ قرآن حکیم بھی اسی بات کی سفارش کرتا ہے:
﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ (پ۴۔ اٰل عمران۔ ع۱۰)
(لوگو!) جب تک آپ وہ مال خرچ نہیں کیا کریں گے۔ اس وقت تک، نیکی تک آپ کو رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ جو آپ کو پیارا ہے۔
چنانچہ اس آیت کے نزول پر حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ (ف ۳۱ھ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ (ف ۲۴ھ) اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (ف ۷۳ھ) نے اپنی عزیز ترین چیزیں خدا کے حضور پیش کر کے تعمیل کی۔ (ابن کثیر ص ۳۸۱/۱)
اعراب:
قُلِ الْعَفْو کے اعراب میں اختلاف ہے، بعض امام ’العَفْوَ‘ یعنی ’واؤ‘ پر زبر پڑھتے ہیں اور کچھ حضرات اس پر پیش پڑھتے ہیں۔ مگر امام ابن جریر فرماتے ہیں جمہور کا مسلک پہلا ہے اور وہی صحیح ہے۔ فرماتے ہیں اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے۔
يَسْئَلُوْنَكَ اَيَّ شَيْءٍ يُنْفِقُوْنَ؟ قُلِ الَّذِيْ الْعَفْوَ (ابن جرير طبري)
آپ سے پوچھتے ہیں کون سی شے خرچ کریں؟ فرما دیجئے: جو ‘عَفْو‘ ہو۔
اس صورت میں اس کے معنی ہوں گے، جو آپ کو عمدہ لگے؟ کیونکہ ’اَیُّ‘ جب استفہام کے لئے ہو تو اس وقت اس سے جنس یا نوع مراد ہوتی ہے (راغب) اس لئے اب سوال یہ نہیں ہو گا کہ کتنا خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہو گا کہ ’کیسا‘ خرچ کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ معنی بھی اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں جو حضرت ربیع (۱۴۰ھ) اور حضرت قتادہ (۱۱۷ھ) نے پیش کیا ہے اس لئے یہ سوشلسٹوں کے مکروہ عزائم اور نظریہ کا ماخذ بالکل نہیں بن سکتی۔
اس سے قریب تر قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں:
جتنا خوش دلی سے دے سکو، دو، یعنی جو تمہاری طبیعت پر شاق نہ رہے اور دل کو خوش لگے۔ مثلاً حضرت طاؤس بن کیسان خولانی (ف ۱۰۵ھ) حضرت حسن بصری (۱۱۰ھ) اور حضرت عظاء کا بھی یہی قول ہے۔ (ابن جریر ص ۳۶۴/۲)
حضرت امام ابن القیم نے اسی قول کو ترجیح دی ہے (زاد المعاد ص ۱۱۵/۲)
ان یاخذ من الحق الذی علیھم ما طوعت به انفسھم وسمحت به وسھل عليھم ولم يشق وھو العفوا الذي لا يلحقھم ببذله ضور ولا مشقة
ہمارے نزدیک اس ’خوش دلی‘ کے پیمانے جدا جدا ہیں، کچھ تو واقعۃً زائد مال ہی خدا کی راہ میں لٹا دیتے