کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 21
سے پہلے کا تھا، وَاَسْاَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ سے وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ تك كا ٹكڑا چھوڑ کر باقی ساری سورۂ اعراف مکی ہے یعنی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے اور معروف معنی میں زکوٰۃ کا حکم ۸ھ میں نازل ہوا ہے۔ اس سے پہلے ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ صدقہ و خیرات کے معنی میں مستعمل ہوتا تھا اس لئے وہ فرماتے ہیں، نزولِ زکوٰۃ کے بعد خُذِ الْعَفْو کا حکم منسوخ ہو گیا ہے لیکن امام طبری (ف ۳۲۰ھ) پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں (فتح الباری ص ۲۰۵،۲۰۶/۸)
ہاں سورۂ بقرہ جس میں آیت یَسْئَلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ؟ قُلِ الْعَفْو‘‘ ہے مدنی ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے لیکن یہ ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں بالکل ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔
البقرة جميعھا مدنيه بلا خوف وھي من اوائل ما نزل بھااللّٰہ (ابن كثير ص ۳۵ /۱ سورة بقره)
زکوٰۃ کا نزول اس سے کہیں بعد نازل ہوا یعنی ۸ھ میں۔ اس لئے جن بزرگوں نے قُلِ الْعَفْو کو منسوخ قرار دیا ہے اس کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے۔
حضرت مجاہد (ف ۱۲۳ھ) فرماتے ہیں زکوٰۃ کا حکم اس کا ناسخ نہیں بلکہ اس اجمال کی تفصیل ہے، یعنی عفو سے مراد مالِ نصاب میں جو شرح زکوٰۃ مقرر ہے وہ ہے۔ وقال اخرون: مع ذلک الصدقة المفروضة (ابن جرير ص ۳۶۵/۲) وقيل مبنية باية الزكوٰة قاله مجاھد وغيره (ابن كثير ۲۵۶/۱ وجامع البيان ص ۳۳)
حضرت ربیع بن انس (ف ۱۴۰ھ) اور قتادہ بن وعامہ (ف ۱۱۷ھ) فرماتے ہیں۔ اس سے مراد سب سے عمدہ اور بہتر مال ہے۔ افضل مالک واطيبه (ابن جرير ص ۳۶۴/۲)
ابن ابی حاتم (ف ۳۲۷ھ) نے اس کی جو شانِ نزول بیان کی ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے حضرت معاذ (ف ۱۸ھ) اور حضرت ثعلبہ (ف ھ) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ:
حضور! ہمارے پاس غلام بھی ہیں اور نفیس مال بھی، اس پر آیت مذکور نازل ہوئی۔
یحیی انه بلغه ان معاذ بن جبل وثعلبة اينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال يا رسول اللّٰہ ان لنا ارقاء واھلين من اموالنا فانزلاللّٰه: يسئلونك ما ذا ينفقون۔ (ابن كثير ص ۲۵۶)
صاحب لباب النقول نے ابن ابی حاتم سے بہ روایت سعید اور عکرمہ حضرت ابن عباس سے یہ الفاظ بیان کئے ہیں:
ان نفراً من الصحابة حين امروا بالنفقة في سبيل اللّٰہ اتوا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالوا الا ندري ما ھذه النفقة التي امرنا في اموالنا فما ننفق منھا فانزل اللّٰہ الاية.
جب اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کو کہا تو صحابہ کی ایک جماعت حضور کی خدمت میں آئی اور