کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 20
گو بات کڑوی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ، ملکی آئین کی رُو سے بلکہ خود ان ترمیمات کی رُو سے بھی جو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا موجب بنیں، قادیانیوں کی طرح ان سوشلسٹوں کو بھی ’غیر مسلم اقلیت‘ قرار دیا جانا چاہئے اور جس طرح ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے، اسی طرح ان کی ’سوشلزم‘ کی تبلیغ پر بھی پابندی عاید کی جائے۔ لیکن سنا ہے، جب جناب بھٹو روس کے دورہ پر تشریف لے گئے ہیں، صدرِ مملکت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سوشلزم کی تبلیغ کیوں؟ عیاں راچہ بیاں!
بہرحال یہ تحریک روحِ اسلام کے خلاف ہے۔
خُذِ الْغَفْو۔ پہلے تو اس کے وہ معنی نہیں جو وہ کرتے ہیں۔ اصل اس کے معنی ہیں کہ: درگزر کیجئے! یعنی درگزر کرنا شیوہ بنا لیجئے! حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ف ۶۳ھ) فرماتے ہیں:
امر اللّٰہ نبيّه صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان يَاْخُذَ الْعَفْوَ من اخلاق الناس او كما قال (بخاري كتاب التفسير باب قوله خذ العفو)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے کہ: لوگوں کی عادات کے بارے میں ’’عفو‘‘ (درگزر کا شیوہ) اختیار فرمائیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت خذ العفو وامر بالعرف نازل ہوئی تو آپ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اس کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا، رب سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ پھر آکر بتایا کہ آپ کا رب آپ سے فرماتا ہے کہ، جو آپ سے توڑے، آپ اس سے جوڑیں، جو آپ کو نہ دے، آپ اس پر داد و دہش فرمائیں اور جو آپ سے زیادتی کرے آپ اس سے درگزر کیا کریں۔‘‘
ان ربك يامرك ان تصل من قطعك وتعطي من حرمك وتعفوا من ظلمك (فتح الباري كتاب التفسير باب خذ العفو ص ۳۰۶، ۸ بحواله ابن مردويه)
اس سے جو اگلی آیت ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نزغ فاستعذ باللّٰہ (اعراف ع ۲۴) یعنی اگر شیطان کی تحریک پر آپ کے دل میں (انتقام کی) آتحریک پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو)
لیکن یہ معنی ایک سوشلسٹ کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اختلاف رائے کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ درگزر کہاں؟
جن اکابر (مثلاً ابنِ عباس رضی اللہ عنہما) نے اس کے معنی ’مالِ زاید‘ کے لئے ہیں ان کے متعلق مفسرین مثلاً مسدی (ف ۱۲۷ھ) ضحاک (ف ۱۰۵ھ) عطاء (ف ۱۳۵ھ) ابو عبیدۃ (ف ۲۱ھ) فرماتے ہیں، یہ حکم نزولِ زکوٰۃ