کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 19
دار الافتاء مولانا عزیز زبیدی واربرٹن استفتاء ۱۔ ارشادِ ربانی ہے ’خُذِ الْعَفْوَ‘ مگر سوشلسٹ اس کے برعکس یوں تاویل کرتے ہیں کہ جو کچھ وافر ہے سب لے لو۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ ۲۔ بے نماز یا غیر دیندار سیاسی لیڈر کو اپنا لیڈر بنانا کیسا ہے؟ ۳۔ مسلمان اور اسلام کے دعویدار اَن گنت، اسلام کے نعرے بھی بہت لگائے جاتے ہیں اس کے باوجود ہم تنزّل کا شکار ہو رہے ہیں کیوں؟ کہا جاتا ہے (نعوذ باللہ) اسلام پرانا ہو چکا ہے ورنہ ہم ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ اس کی وجوہات تحریر فرمائیں۔ الجواب (الف) عفو اور سوشلزم: جو نام نہاد مسلمان سوشلزم پر ایمان رکھتے ہیں وہ برائے نام اسلام کا نام لیتے ہیں یعنی کاروباری حد تک۔ الا ما شاء اللہ! اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ ان کو سارے قرآن میں صرف یہی دو آیتیں نظر آتی ہیں، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ کسی طرح اس قرآنی منتر کے ذریعے ’خداوندان سوشلزم‘ تک ان کو رسائی حاصل ہو سکے اور مسلمانوں کے حلقوں میں وہ اچھوت ہو کر نہ رہ جائیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ان ’جعلی مساواتیوں‘ کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کے پیٹ کا دھندا دوسروں سے بڑھ کر کامیاب رہے۔ گویا کہ یہ لوگ جس ‘بدنام ازم‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، اس میں بھی وہ مخلص نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سوشلسٹ قادیانیوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ انہوں نے جن کو یہ تشریعی اختیارات دے رکھے ہیں وہ خدا کے بھی منکر ہیں۔ غلام احمد مرزا کم از کم خدا کو تو مانتا تھا۔ گو وہ ترنگ میں آکر خود بھی خدا بن جاتا تھا، تاہم اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی ضرورت اور وجود کا قائل تھا۔ کارل مارکس، لینن اور ہیگل وغیرہ تو خدا کی ضرورت کے بھی قائل نہیں تھے۔