کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 14
ہے، اور وہ اس سلسلے میں یہاں تک چلے گئے ہیں کہ وحی الٰہی بھی ان کے نزدیک انسان کے باطن اور اندر سے ایک مخصوص آواز کے اُبھرنے اور پیدا ہونے کا نام ہے، وہ نبوت کو بھی ایک ملکہ قرار دیتے ہیں اور اس کا نام ’جبرئیل‘ رکھتے ہیں۔ عقلاء کے یہ افکار کسی تجربہ، شواہد اور قطعی دلائل پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ اوہام ہیں، فکر و نظر کی کوتاہ دامنی اور عقل کی نارسائی کی پیداوار ہیں، کہتے ہیں: یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، ہم کہتے ہیں جو چیز حدودِ عقل سے پرے کی ہے اِسے عقل کے کدال سے حاصل کرنا بجائے خود ’’خلافِ عقل‘‘ ہے۔ صحیح طریق کار یہ ہے کہ جو بات ہماری محدود عقل کی دسترس سے دراء الورا ہے، اسے ان مبارک ہستیوں کے بتانے پر مان لینا چاہئے جن پر ’عالم الغیب‘ کی جانب سے مناسب ’غیوب‘ کا فیضان ہوتا رہتا ہے۔
بہرحال فرشتے سراپا اطاعت اور سرتاپا وفا ایک نورانی مخلوق ہے، جس کے شب و روز اور تعامل کی کچھ تفصیلات بھی کتاب و سنت میں آگئی ہیں۔ جو اطاعت کی حد تک ہمارے لئے ایک نمونہ بھی ہیں اور ان کے اس تعارفی تذکار سے اس امر کا رد بھی ہو جاتا ہے کہ: یہ دنیا ایک غیر متبدل طبعی قوانین کے زور سے چل رہی ہے۔ یعنی ظہورِ کائنات کے بعد اب وہ ’یدِ غیب‘ کے تعاون اور سرپرستی سے بے نیاز ہو گئی ہے۔ حالانکہ وہ طبعی اسباب خود خدا نہیں ہیں بلکہ خدا کی مشیت کے پابند ہیں کیونکہ مسبب الاسباب اور علۃ العلل صرف اس کی مشیت ہے۔ (کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ)
مَلَائِکَہ: فرشتے پروں والی مخلوق ہے۔﴿ اَوْلِیْ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰي وَثَلَاثَ وَرُبٰعَ ﴾(فاطر)
وہ موحد ہیں اور توحید کی شہادت دیتے ہیں۔﴿ شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰٓئِكَةُ ﴾(آلِ عمران) وَیُؤْمِنُوْنَ بِه (مومن)وہ دیوی یا دیوتا نہیں ہیں بلکہ خدا کے ’عبد‘ (غلام، بندے) ہیں مگر بڑے محترم اور مکرم۔ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (انبیاء)﴿اَفَاَصْفٰکُمُ رَبُّکُمْ بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِکَةٍ اِنَاثًا اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا﴾ (بنی اسرائیل)﴿وَجَعَلُوْا الْمَلٰٓئِکَةَ الَّذِيْنَ ھُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ﴾(زخرف)
یہ عبدیت ان کے لئے وجۂ عار نہیں ہے: ﴿لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِلّٰهِ وَلَا الْمَلٰٓئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ﴾(النساء) عبديت (حضرت) مسیح اور مقرب فرشتوں کے لئے وجۂ عار نہیں ہے۔ وہ خدا کے سامنے اکڑتے نہیں ہیں ﴿وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِه﴾ (انبياء) اگر خود خدا کا نعرہ بلند کرتے تو ان کے لئے بھی جہنم ہوتی۔
انتظامیہ کے علاوہ فرشتے بارگاہِ الٰہی میں حاضر رہتے ہیں: ﴿وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَةَ حَاَفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ﴾ (زمر) اور كچھ عرشِ الٰہی كے آپس پاس رہتے ہيں۔ ﴿اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَه﴾ (مومن)
وہ نکمے یا شہزادے بن کر نہیں رہتے، بلکہ خدا کے سامنے سدا سر بسجود رہتے ہیں۔﴿ وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا