کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 13
وَھُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٍ٭ وَاِذْ۸؎ قَالَ ۹؎رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ۱۰؎
متوجہ ہوا تو سات آسمان ہموار بنا دیئے اور وہ ہر چیز (کی کنہ) سے واقف ہے۔ (اے پیغمبر لوگوں سے اس وقت کا تذکرہ کرو) جب
___________________________________________
بنیے۔ (لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ الاية)
٭ زمین کے ساتھ آسمانوں کا ذِکر دراصل ان کے باہمی تعلق کے اظہار کے لئے ہے کیونکہ ان کے بغیر زمین کے لئے تنہا گہوارہ بننا دشوار بات ہے۔ (ثم استویٰ)
۸؎ اِذْ (جب، جس وقت، جس ٹائم میں) یہ عموماً ماضی کے کسی ’ٹائم‘ یا اس میں واقع کسی ’بات اور امر‘ کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے آتا ہے کہ فلاں وقت کو یاد کرو یا یہ کہ فلاں واقعہ کو یاد کرو جو فلاں گھڑی اور دن کو پیش آیا۔ جس سے مقصود تذکیر، استدلال اور ہوش میں آنے کے لئے درسِ عبرت ہوتا ہے۔ جب اس کے ساتھ ’’مما‘‘ لگ جاتا ہے۔ ’’اذ ما‘‘ تو شرط کے معنی کو متضمن ہوتا ہے۔
۹؎ قَالَ (کہا، تصور کیا، رائے قائم کی، تعمیل کی، الہام کیا) اس کے متعدد معنی ہیں جیسا کہ قوسین میں واضح کئے گئے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز سے بات کی جاتی ہے مگر اس کے حسبِ حال۔ جیسا کہ یہاں ہے، ملائکہ (فرشتوں) سے رب نے کہا مگر ہماری طرح نہیں بلکہ ویسے، جیسے ان کے لئے چاہئے۔ ہمارے نزدیک یہ پیرایۂ بیان مجاز نہیں ہے، کیونکہ ان کے لئے وہی حقیقت ہے جو انداز ان کے لئے مخصوص ہے اور اسی پیرائے میں ان سے بات کی گئی۔
۱۰؎ مَلَائِکَةَ (رشتے، پیام رساں، الٰہی منتظمین) بعض ائمہ کا ارشاد ہے کہ مَلَکٌ، مُلْکٌ کے لفظ سے نکلا اور بنا ہے، جو فرشتے، انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو ’’مَلَکْ‘‘ کہتے ہیں، جس طرح دنیا کے سیاسی حکمرانوں کو ’’مَلِکْ‘‘ (بادشاہ) کہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں، جو فرشتے دنیا کا انتظام کرتے ہیں۔ ’’مَلَکْ‘‘ کا لفظ صرف انہی کے لئے مخصوص ہے، جو فرشتے انتظامیہ سے تعلق نہیں رکھتے ان کو ’’مَلَک‘‘ نہیں کہتے (مفردات راغب) تخلیق آدم کے سلسلے میں، فرشتوں سے ذکر کرنے کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ آدم اور اس کی اولاد ان کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔
امام بیضاوی فرماتے ہیں، فرشتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ہیں جو حق کی معرفت اور تسبیح و تقدیس میں مستغرق رہتے ہیں۔ یسبحون اللیل والنھار لا یفترون یہ بارگاہِ الٰہی کے مقرب فرشتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو ’’قضا و قدر‘‘ کے مطابق زمین و آسمان کی تدبیر اور نظم و انصرام سے تعلق رکھتے ہیں۔ (بیضاوی ملخصاً)
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک نورانی مخلوق ہے، جس کا خارج میں وجود پایا جاتا ہے، صفاتِ الٰہیہ یا روحانی اور طبیعی قوی سے عبارت نہیں ہیں۔ جیسا کہ بعض عقلاء کا کہنا ہے کہ یہ صرف ملکہ اور معنوی قوتوں کا نام