کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 12
یہ حسنِ عمل ایک روحانی نوعیت کی چیز ہے جو انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر مبنی ہوتی ہے اور ایک مادی قسم کی ہے کہ اس نگار خانہ کائنات میں اپنی محنت اور عمل کے ذریعے کون نئی نئی دریافت کرتا اور اس پر قابو پاتا ہے اور ان کی ان محنتوں سے خلق خدا متمع ہوتی ہے؟ یہاں یہ دونوں مقصود ہیں۔ اس آیت میں ہیئت او ریاضی کے مسائل پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے، بلکہ دنیا کو خدا کی بے مثال قدرتوں کی طرف دعوت مطالعہ دی جارہی ہے تاکہ اس کو اندازہ ہو جائے کہ جو خدا اور خدائی عظیم صفات کی حامل ذاتِ کریم ہوتی ہے وہ کس قدر عظیم قدرتوں، محیر العقول سطوت، باجبروت جلال و کمال، حیرت افزا حسن و جمال اور حدود و فراموش الطاف و عنایات کی مالک ذات ہوتی ہے؟ جو اقوام غیر اللہ کے در پر ناصیہ فراسا ہیں، وہ دراصل ’’خدا‘‘ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور ساتھ ہی یہ ’’آدم نافہمی‘‘ پر بھی دال ہے۔ فقہ القرآن: اس رکوع سے یہ باتیں مترشح ہوتی ہیں: ٭ عبادت اور سچی غلامی صرف اِسی ذاتِ کبریا کا حق ہے جو خالق اور منعم ہے، دوسرا نہیں۔ دوسرے کی مشروط اطاعت تو ممکن ہے، عبادت بالکل نہیں۔ (رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ) ٭ دنیا جہان کی ساری طاقتیں مل کر بھی، قرآن حکیم کی چھوٹی سو سورت جیسی سورت بھی نہیں بنا سکتیں، صورۃً نہ معناً۔ (ولن تفعلوا الايه) ٭ جنت اور اس کی بہاریں صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص ہیں جو ایمان اور عمل صالح کا ٹکٹ رکھتے ہوں فی سبیل اللہ بہشت کا وہاں کوئی ذکر نہیں۔ (وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) ٭ وضوحِ حق کے لئے مناسب مثالوں کو بیان کیا جا سکتا ہے تاکہ بات لوگوں کی سمجھ میں آجائے، مثال کو نہیں دیکھنا کہ وہ بڑی ہے یا چھوٹی، بلکہ اس کے لئے مخاطب کے معیارِ استعداد اور مضمون کی توضیح کے تقاضوں اور سب و روز کو ملحوظ رکھنا چاہئے (إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا) ہاں ان سے استفادہ خالی الذاہن لوگ کرتے ہیں، اپنی ضد کے جو پکے ہیں، وہ نہیں۔ (يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا) ٭ فاسق، بد عہد، بد معاملہ اور تخریب کار کا نام ہے۔ (الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ) ٭ کچھ قومیں سمجھتی ہیں کہ روشنی کی خالق ایک ذات ہے اور اندھیرے کی دوسری، اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ: برہما جی خالق، وشنوجی باقی رکھنے والے اور شیوجی موت دینے والے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ: یہ سب رب العٰلمین کی تخلیق ہیں۔ (وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ) ٭ زمین میں جو کچھ ہے انسان کی ضیافت طبع اور بقا کے لئے ہے، انسان ان کے لئے نہیں ہے۔ یعنی انسان مخدوم ہے ان کا خادم نہیں ہے۔ (خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ) سو ان کا شکار کیجئے خود ان کا شکار نہ