کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 11
کی نسبت خدا کی طرف برابر ہے، ایسا نہیں کہ کوئی چیز دوسری کی بہ نسبت خدا کے زیادہ قریب ہو۔ جب اِلٰی کے ساتھ استعمال ہو تو کسی چیز تک بالذات یا بالتدبیر پہنچ جانے کے معنی ہوتے ہیں ثم استویٰ الی السماء (مفردات) استویٰ، عَلَا اور ارتفع (بلند اور اونچا ہوا) کے معنی میں بھی آتا ہے (قرب) شاہ صاحب نے اس کے معنی ’چڑھ گیا‘ کیے ہیں (موضح) لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں: ونعلمھا فی الجملة من غير ان نتعقلھا او نشبھھا او نكيفھا او نمثلھا بصفاتِ خلقه تعالٰي اللّٰہ عن ذلك علوا كبيرا فالاستواء كما قال مالك الامام وجماعة: معلوم ..... والكيف مجھول (كتاب العلوم الذھبي) یعنی چڑھنا معنی ٹھیک ہیں لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں کہ یسے؟ کیونکہ وہ بندوں جیسا نہیں ہے۔ ہاں ’’متوجہ ہوا‘‘ کے معنی کی صورت میں مطلب صاف ہے کہ آسمان بنانے کا ارشاد فرمایا، سو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ ؎
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
’ثم‘ کے معنی ہوتے ہیں ’پھر!‘ لیکن اس جگہ ’ترتیب‘ کا لحاظ نہیں، بس یوں سمجھیے! جیسے کہا جائے کہ، یہ کیا اور وہ بھی۔ اس لئے ‘پھر‘ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پہلے زمین بنی پھر آسمان۔ کیونکہ سورت نازعات میں تصریح ہے کہ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا (اس کے بعد اس کو بچھایا) ویسے بھی یہاں پر زمین کی پیدائش کی بات نہیں بلکہ ’’ما فیھا‘‘ کی ہے۔ بندوں کے فائدہ کے لئے، جو کچھ اس میں ہے، وہ بعد میں بنایا۔
۷؎ سبع سمٰوٰت (سات آسمان) ان سے کیا مراد ہے، حقیقۃً سات یا بطور محاورہ سات یا بکثرت، اس کے علاوہ ان آسمانوں سے مراد ’حلقے‘ ہیں جن میں سیارگاں محو خرام ہیں یا واقعی ذی حرم کوئی حقیقت ہے۔ جو ابھی تک ہماری نگاہ اور علمی دسترس سے بہت دور ہے۔ بہرحال قرآن حکیم نے ان میں سے کسی بھی ’شکل‘ کا تعین نہیں کیا اور نہ اس کا تعلق تبلیغ اور رشد و ہدایت سے ہے، مادی تقاضوں سے جتنا تعلق ہے انسان اپنی احتیاج کی بنا پر خود اس کے کھوج میں مصروف رہے گا۔ اور یہی شے اس کے لئے مفید بھی ہے۔ جس طرح روحانیات کا تعلق ’محنف اور عمل کا متقاضی ہے اسی طرح مادی نظام کے کوائف بھی مسلسل محنت، جدوجہد اور عمل کے متقاضی ہیں۔ ہاں اس نے اس کی طرف کچھ تلمیحات کر دی ہیں، تاکہ ان کی طرف انسان کا ذہن منتقل ہوتا رہے۔ سو وہ ہو گیا۔ چنانچہ اسی عظیم حکمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
﴿وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُه عَلَيْ الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ﴾(پ۱۲۔ ھود، ع۱)
اور وہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں سے سب سے بہتر کون ہے۔