کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 10
فِيْ الْاَرْضِ جَمِيْعًاق ثُمَّ اسْتَوٰي۶؎ اِلَيْ السَّمَآءِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ ۷؎سَمٰوٰتٍ
ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی کل کائنات پیدا کی پھر (اس کے علاوہ ایک بڑا کام یہ کیا کہ) آسمان کے بنانے کی طرف
_________________________________________
اباحی کہتے ہیں کہ سب چیزیں سب کے لئے ہیں۔ کسی کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ زر، زن اور زمین سب کو سب کے لئے یکساں مال مباح قرار دیتے ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے علاقے پر نظریں جما لے تو آنکھیں پھوڑ دیتے ہیں، ان کی سائیکل چرا لے تو جان سے مار دیتے ہیں۔ بس یہ باتونی لوگ مکار ہیں۔
منکرینِ حق کا معیار، ان کا ملکی رواج، ارباب اختیار اور جمہور کی صوابدید ہے، اور بس۔
حق پرستوں کے سامنے ’وحی الٰہی‘ رہتی ہے، کیونکہ جو مالک ہے حق یہ ہے کہ استفادہ کرنے کی صورت میں، مرضی بھی اسی کی ملحوظ رہنی چاہئے۔ اس سلسلے میں مختصراً اسلامی تعلیمات یہ ہیں۔
الف۔ جو شے کسی کے قبضہ سے پہلے اپنی تحویل میں لے لی جائے، وہ بھی اسی کی۔ من سبق الی ما لم یسبق اليه فھو له (ابو داؤد)
ب۔ کسی کے قبضہ کے بعد اس سے باہم رضا مندی کے ساتھ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ﴿اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃ عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾۔ پ۵۔ النساء: ع۵)
ج۔ بخشش یا مزدوری کی صورت میں جو حاصل ہو، وہ بھی اسی کی ملکیت ہو گی۔ ﴿وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنً﴾(ا الحدید۔ ع۲) یَا اَبَتِ اسْتَاجرْہُ (سورہ قصص۔ ع۳)
اباحی لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کے لئے ہے۔ لیکن وہ بات نہیں سمجھے، اصلی غرض یہ ہے کہ یہ زمین وما فیہا، کسی شخص، خاندان یا گروپ کے نام الاٹ نہیں کی گئی ہے کہ وہ مالک رہیں اور دوسرے ان کے منگتے، بلکہ قانون کے مطابق سب کے لئے اس سے اپنی اپنی ضروریات پوری کرنے اور استفادہ کرنے کی چھٹی ہے، کسی پر دروازہ بند نہیں ہے۔ دوسرا اور بنیادی تاثر یہ دینا مقصود ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ نے آپ کے لئے بنائی ہیں، یہ انصاف نہیں کہ، آپ کھائیں اس کا اور گائیں کسی کا۔
۶؎ ثُمَّ اسْتَوٰی (پھر وہ متوجہ ہوا۔ پھر وہ چڑھ گیا) اس کے استعمالات مختلف ہیں، دو یا دو سے زیادہ فاعل کی طرف نسبت ہو تو برابر کے معنی ہوں گے فاستوی زید و عمرو فی کذا دو کی بجائے ایک کی طرف ہو تو اعتدال کی کیفیت پر دال ہوتا ہے: ذُوْ مِرّۃٍ فَاسْتَوٰی جب عَلٰی کے ساتھ ہو تو چڑھنے، غلبہ پانے اور قرار پکڑنے کے معنی میں ہوتا ہے ﴿فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِه، اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰي﴾. بعض ائمہ نے اس كے یہ معنی کیے ہیں کہ آسمان و زمين كی تمام چيزيں اس كے سامنے مساوی ہیں یعنی جيسا چاہتا ہے سب چیزیں ویسی ہی ہو جاتی ہیں۔ یا یہ کہ تمام چیزوں