کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 9
خطرات میں اور نکھرتے ہیں:
سب سے کٹھن منزل میدانِ کار زار ہے، جب یہ پیش آجاتی تو حرارت ایمانی اور دو آتشہ ہو جاتی اور اپنے آپ کو پورا پورا خدا کے حوالے کر دیتے۔ چنانچہ جب غزوۂ احزاب پیش آیا تو کہا۔
﴿وَلَمَّا رَأ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلَهُ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلَه وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا﴾ (پ۲۱. احزاب ع۳)
اور جب سچے مسلمانوں نے فوجیں دیکھیں، (تو) بولے، یہ تو وہی (موقع) ہے جو خدا اور اس کے رسول نے ہمیں پہلے بتا رکھا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس سے ان کا ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیت اور زیادہ ہو گئی۔
﴿ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِھِمْ﴾ (پ۲۶. الفتح . ع۱)
وہ (خدا) ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت نازل فرمائی تاکہ ان کے پہلے ایمان کے ساتھ اور ایمان زیادہ ہو۔
اگر دشمن ان کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لئے کوئی کوشش کرتے تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا اور اللہ پر پہلے سے زیادہ بھروسہ کرنے لگتے۔
﴿اَلَّذِيْنْ قَالَ لَھُمْ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾ (پ۴. اٰل عمران. ع۲)
(یہ) وه لوگ (ہیں) جن کو لوگوں نے (آکر) خبر دی کہ (مخالف) لوگوں نے تمہارے (ساتھ لڑنے کے) لئے (فوج کی) بڑی بھیڑ جمع کی ہے۔ (ذرہ) ان سے ڈرتے رہنا تو (ڈرنے کے بجائے) ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور بول اُٹھے کہ ہم کو اللہ کافی ہے۔
اصل قصہ یہ ہے کہ: جب مشکل گھڑی پیش آجاتی ہے تو عموماً وہی ہستی یاد آتی ہے جس سے حسنِ ظن، پیار اور جس پر پورا پورا اعتماد ہوتا ہے۔ جیسے بچہ ڈر کے موقع پر جب پناہ ڈھونڈتا ہے، تو ماں ہی کی پناہ لیتا اور آغوش رحمت ڈھونڈتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ ان کو خداوند تعالیٰ سے تعلق تھا اس لئے جب ڈرانے دھمکانے کی باتیں ہوتیں تو وہ اپنے خدا کی طرف لپکتے تھے۔