کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 7
یہ بات، پتے کی بات تھی اور نہایت معنی خیز بھی، اگر وہ دیانت داری کے ساتھ سوچتے تو ہوش میں آنے کے لئے کافی تھی، لیکن ناس ہو ہٹ دھرمی، اوہام پرستی اور کج بینی کا کہ اور ہی الٹے چلے کہنے لگے کہ: مسلمانوں کا خدا بس مکھیاں ہی مارتا ہے، خدا کو خدا ہو کر مکھیوں مچھروں کی ہی مثالیں سوجھتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا: اس میں شرمانے کی کون سی بات ہے، اگر میری نسبت سے دیکھو تو پھر بھی بجا ہے، کیونکہ میرے لیے جب ان کو پیدا کرنا برا نہیں تو ان کا نام لینا کیوں برا ہو گا؟ مگر باطل معبودوں کو سامنے رکھا جائے تو بھی ان کی بے بسی اور بے کسی کے اظہار کے لئے اِس سے بہتر اور معنی خیز طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نیز فرمایا، آپ تو مچھروں کی مثال پر سیخ پا ہو رہے ہیں اگر اس سے بھی کسی کمزور تر شے کا ذِکر کر دیا جائے تو بھی بے محل نہ ہو گا بلکہ اس سے بتوں کی صحیح پوزیشن اور صورت حال کے سمجھنے کے لئے اور مدد ملے گی۔ (فَمَا فَوْقَھَا)
۲؎ فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ (تو وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک اور حق ہے) حق تعالیٰ کے سلسلے میں قلبی طمانیت، خشوع و خضوع اور تسلیم و رضا شرط ایمان ہے اور صرف وہی ایمان رنگ اور برگ و بار لاتا ہے جو مندرجہ بالا اقدار کی اساس پر قائم ہوتا ہے، اس لئے بندۂ مومن کے سامنے جب حق تعالیٰ کی بات آجاتی ہے تو وہ سچی پیاس کے ساتھ اس کی طرف لپک پڑتا ہے﴿ فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ﴾ میں اسی عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم نے ’مسلم‘ کی اس کیفیت کو مختلف انداز میں ذکر کیا ہے۔
خشوع و خضوع اور بڑھ جاتا ہے:
﴿وَاِذَا يُتْلٰي عَلَيْھِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذَقَانِ سُجَّدًا وَّيَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ َيَزِيْدُھُمْ خُشُوْعًا﴾ (پ۱۵. بنی اسرائيل. ع۱۲)
جب ان کے روبرو (قرآنی آیات کی) تلاوت کی جاتی ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے۔ واقعی ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور ٹھوڑیوں کے بل گِر پڑتے ہیں (سجدے میں) روتے (جاتے) ہیں اور قرآن کی وجہ سے ان کی عاجزی (اور) زیادہ ہو جاتی ہے۔
اس میں کتنا سوز ہے۔ تسلیم و رضا کی کیا کیفیت ہے اور رب کے حضور کس قدر والہانہ انداز میں وہ تڑپتے ہیں؟ آپ کے سامنے ہے۔
شدید مزاحمت کے باوجود:
نفس و طاغوت کی شدید مزاحمت کے باوجود، ایمان ان کا گھٹتا نہیں اور