کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 5
ادراک یہاں آکر کیوں لنگڑانے لگ گیا ہے اور ان کو یہ کیوں خیال نہیں آیا کہ اس طرح ہر مکتب فکر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، اور اس کے بعد ان کو اس کا حق حاصل ہو گا۔ اگر یہ لے بڑھی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اور یہ وحدت کس بری طرح ’اجزاء پریشان‘ کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب جو کچھ ہو، اسلام کی بنیاد پر ہو کیونکہ دنیا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر دوسرے تمام نجی افکار اور مذاہب پر اپنے مستقبل کی بنیاد رکھنے کے موڈ میں نہیں رہی۔ اگر آپ نے زبردستی ان کا بوجھ اس کے کندھے پر ڈالنے کا اصرار جاری رکھا تو ہو سکتا ہے کہ: لوگ سرے سے اسلام سے ہی منحرف ہو جائیں۔ کیونکہ غیر سرکاری افکار اور مساعی، تعلیم دین کی حد تک تو مبارک ہو سکتی ہیں، لیکن بجائے خود ’دین حق‘ نہیں کہلا سکتیں۔ اِس لئے ہم حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ تاکہ انتشار کی طاغوتی قوتیں کروٹ نہ لے سکیں اور ناحق مسٹر بھٹو کی ذات بھی موضوع بحث بننے سے بچ جائے۔ ہمارے نزدیک ہماری یہ گزارشات ملکی آئین کی روح سے عین مطابقت رکھتی ہیں، اس لئے ہمارا نہ سہی ملکی آئین کا ہی احترام انتشار اور افتراق کا ایک ایسا بیج بو دیا ہے جس کے مہلک نتائج شاید یہ ’خواہ سراء‘ اب احساس نہ کر سکیں بہرحال ان کو لازماً احساس ہو گا، لیکن ؎ بعد از خرابیٔ بسیار