کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 44
باتفاق رائے پاس کی گئیں۔ ۱۔ قرآن مجید کی خصوصی تعلیم کے لئے یونیورسٹی میں ایک کالج قائم کیا جائے جس کا نام ’قرآن کالج‘ ہو۔ ۲۔ اس کالج میں مدت تعلیم چار سال ہو گی۔ ۳۔ تلاوتِ قرآن کے علاوہ باقی تمام مضامین کا امتحان تحریری ہو گا لیکن کالج کی کمیٹی تقریری امتحان کے لئے ہر سال چار مضامین کا انتخاب کرے گی اور ۵۰ فی صد نمبر حاصل کرنے والے کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔ ۴۔ قرآن کالج میں داخلہ کی شرائط وہی ہیں جو جامعہ کے دوسرے کالجوں کے لئے ہیں۔ البتہ اس کالج میں داخلہ کے امیدوار کا حافظِ قرآن ہونا لازمی ہے اور اس کے لئے داخلہ سے پہلے خصوصی امتحان لیا جائے گا۔ ۵۔ ملکی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کالج میں سعودی طلبا کی تعد ۵۰ فی صد مقرر کی گئی ہے۔ ۶۔ قرآن کالج میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جائیں گے۔ ۱۔ تلاوتِ القرآن ۲۔ المدخل الی علم القراءات ۳۔ القراءات السبع ۴۔ القراءات الشاذۃ ۵۔ التوجیہ القراءات ۶۔ تاریخ المصحف ۷۔ الوقف والابتداء ۸۔ الرسم والضبط ۹۔ عدّ الآی ۱۰۔ علوم القرآن ۱۱۔ اعجاز القرآن و بلاغتہ ۱۲۔ التفسیر ۱۳۔ التوحید ۱۴۔ الحدیث ۱۵۔ النحو والصرف ۱۶۔ البحث والمراجع مذکورہ بالا مضامین پر مشتمل اسباق کی تقسیم اسی خاکہ کے مطابق ہو گی جس پر اس کالج کا پلان تیار کیا گیا ہے اور دیگر امور کے طریقۂ کار کے لئے ایک مفصل نصابِ تعلیم شائع کیا جائے گا۔ یونیورسٹی میں دعوت و تبلیغ کے ایک مرکز کا قیام یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہ یونیورسٹی کوئی علاقائی، ملکی، قومی اور صوبائی یونیورسٹی نہیں ہے اور نہ یہ نصابی یونیورسٹی ہے، بلکہ یہ ایک علمی، عملی، عالمی اور اسلامی عظیم الشان سرچشمہ اور ادارہ ہے جو عالمِ اسلام کے مسلمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک اکیڈمی اور مرکز ہے، یونیورسٹی نے اپنا پیغام عام کرنے کے لئے اسی طریقہ اور نصب العین کو سامنے رکھا ہے جو اسلام نے روز اوّل سے