کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 41
اور کمپیوٹر پروگرام سے متعلق، ہر ایک معاملے کا حساب رکھے گا۔ الیکٹرانک کمپیوٹر کی مدد سے بھی کچھ خاص کام کئے جائیں گے جو پٹرول اور معدنیات کے کالج واقعہ ظہر ان کے کمپیوٹر سنٹر میں ہوں گے۔ یہ بھی منصوبہ بنایا گیا ہے کہ مجوزہ لائبریری میں بتدریج اسلامی لٹریچر اور مخطوطات کے علاوہ علم ہیئت سے متعلق موجود عہد کے لٹریچر، اٹلس اور مجلات و رسائل کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ رکھا جائے گا۔
بین الاقوامی تعاون:
یہ امر نہایت ہی خوش آئند ہے کہ سعودی عرب کی کئی یونیورسٹیوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اس رصد گاہ کے پروگراموں میں پورا پورا حصہ لیں گی اور اپنے ہاں سے ماہرین سائنس کی مدد سے جو طبیعات اور ریاضی کے گریجوئیٹ ہوں گے، رصد گاہ کے کاموں میں ممد و معاون ہوں گی۔ مستقبل قریب میں اس امر کے لئے علم فلکیات کے گریجوئیٹ بھی مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ ایک مشترکہ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق اس امر کا بھی امکان ہے کہ سعودی حکومت کے جامعات اور سائنسی ادارے اس معاملے میں رصد گاہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ یہ سائنسی تعلق صرف سعودی حکومت کے اداروں تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ مستقبل میں اس تعاون کا دائرہ کار تمام دنیائے اسلام کی مخصوص رصد گاہوں تک بڑھ جائے گا۔ اس معاملے میں دنیا بھر کی دیگر رصد گاہوں سے تعاون کی بھی مکمل امید ہے۔
کوئی رصد گاہ بھی اکیلے اپنے طور پر کسی مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکتی جب تک کہ اسے باہر سے ایسا تعاون حاصل نہ ہو۔ ان فلکیاتی مشاہدات میں کئی خصوصی امور شامل ہوتے ہیں اور دنیا بھر کی رصد گاہوں میں کئی تکنیک اور مختلف آلات کی مدد سےان کے حل تلاش کئے جاتے ہیں۔ ان میں بعض اوقات صرف ایک ہی ستارے سے متعلق مشاہدات ہوتے ہیں، بعض دفعہ کئی ستاروں کے ایک گروپ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک مسئلہ ایک خاص عرصہ تک اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ اسے ایک خاص اندازِ مشاہدہ اور خصوصی آلات کی مدد سے حل کیا جائے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی ستارہ کرّہ ارض کے مختلف مقامات پر یا کسی ایک خاص وقت میں نظر نہیں آسکے گا تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر یہ لابدی امر ہے کہ دوسرے ایسے اداروں سے قریبی تعلقات پیدا کیے جائیں اور ان سے ضروری مدد لی جائے۔ ایسے امور کے لئے بین الاقوامی فلکیاتی یونین بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ تعاون متصل واقع مسلم ممالک جیسے الجزائر، لیبیا، مصر، ترکی، شام، پاکستان اور انڈونیشیا کی رصد گاہوں سے ہو سکتا ہے۔
یہ امر بہت اہم اور دلچسپی کا حامل ہو گا کہ مستقبل میں ایک ٹریننگ سنٹر قائم کیا جائے جو تمام مسلمانانِ عالم کو اس قابل بنا دے کہ ایسے معاملات میں ان میں اس امر کی سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے کہ انہیں اپنے اپنے ممالک اور دائرۂ اختیار میں کن کن اصولوں کی پابندی کرنی ہو گی یا انہیں کام میں لانا ہو گا۔