کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 4
وصول نہ کریں۔ ؎
ایں خیال است و محال است و جنوں
بکری دودھ دیتی ہے پر مینگنیاں ڈال کر، وہی کچھ اب اس سلسلے میں ہو رہا ہے۔ کوئی صاحب ان سے کہے کہ: بھئی اگر کام کرنا ہے تو سیدھے طریقے سے کرو اور کرنے کی طرح کرو، نخرے کیوں کرتے ہو؟ اگر نیک نیتی سے کہا ہے تو اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا، اور یہی اللہ سے دعا ہے کہ اس کے عوض آپ کو اتنا دے کہ: آپ کو اس تاریخی فیصلہ کے کاروبار کی حاجت ہی نہ رہے۔ یقین کیجئے! وہ ایسا ہی کرتا ہے، بشرطیکہ آپ بھی اپنے کو اس کا اہل ثابت کر دیں۔
شیعہ کا نصاب۔ الگ قرار دے دیا گیا
ملکی آئین اور دستور میں ان اسلامی قوانین اور دستور کی ضمانت دی گئی ہے، کتاب و سنت جن کی متقاضی ہے، باقی رہے، مختلف مکاتب فکر کے اپنے اپنے دائرے؟ سو ان کو اس حد تک اپنانے اور زندہ رکھنے کی کھلی چھٹی ہو گی جس حد تک وہ مملکت کے مقررہ آئین اور قوانین سے متصادم نہیں ہو گی۔ گویا کہ صرف ملکی آئین اور قانون کو سرکاری حیثیت ہو گی، باقی جو بھی ہوں گے، وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، ملک میں ان سب کی حیثیت نجی اور پرائیویٹ معاملے کی ہو گی اور ہونی چاہئے! کیونکہ ملکی آئین میں ’کتاب و سنت‘ کو اساس قرار دیا گیا ہے، کسی ایک یا کئی ایک مکاتبِ فکر کو نہیں۔ اگر اربابِ اقتدار ملک کی کسی ایک جماعت کے نجی مفاد کو سرکاری حیثیت دے کر مملکت پر اس کی سرپرستی اور ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے نزدیک مکمل آئین کی رُو سے وہ ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، اس کے علاوہ یہ سوال پیدا ہو گا کہ ملک میں دوسری موجود جماعتوں کو کیوں نظر انداز کیا جائے؟
ان گزارشات کی ضرورت اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ شیعہ حضرات جن کو ملک میں یقیناً کوئی خطرہ نہیں تھا وہ طویل عرصہ سے اصرار کر رہے تھے کہ سرکاری تعلیمی درسگاہوں میں ان کے لئے نصابِ تعلیم الگ تشخص کیا جائے جو وہ خود دیں۔ اب حکومت نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ہے جو آئندہ ہائی کلاسز سے شروع ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہوں کہ چونکہ مسٹر بھٹو کا تعلق شیعہ خاندان سے ہے اس لئے یار دوستوں نے ان کی دلجوئی کرنا ضروری خیال کیا ہو، لیکن ابھی تک ہم نے اس انداز سے نہیں سوچا اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ ہم جو سوچ رہے ہیں کہ، چونکہ حکومت ’چاند‘ تک اپنی کمندیں محض اس لئے ڈال رہی ہے کہ کسی طرح ملک میں عید ایک ہوتا کہ ملتِ اسلامیہ کی وحدت موجود اور مشہود ہو سکے، خدا جانے ان کا تو سنِ