کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 39
وقت کا محتاج ہے۔ یہی وہ سب ہے جو مکہ مکرمہ کو معیاری وقت کے تعین کے لئے مرکز بنانے پر مجبور کر رہا ہے۔ چنانچہ اس رصد گاہ کے قیام میں اس امر کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ اوقات کو نشر کرنے والے سگنل دنیائے اسلام کے کونے کونے میں سنائی دے سکیں۔
مشاہدۂ قمر:
زمین کے گرد چاند کی گردش ایک قمری مہینے میں مکمل ہوتی ہے جس کی لمبائی کا اندازہ ستاروں، سورج و دیگر اجرام کی نسبت سے قمر کے متوالی انتقال مکانی سے کیا جاتا ہے۔ ہم یہاں قمر کی صرف ایک حرکت سے بحث کرتے ہیں جس کے نتیجے میں چاند کے کئی معلوم ممازجات ظاہر ہوتے ہیں۔ جب یہ چاند سورج اور زمین کے درمیان واقع ہوتا ہے تو اس کا روشن حصہ عین دوسری جانب ہوتا ہے اور زمین کے کسی حصے سے بھی نظر نہیں آسکتا، یہاں تک کہ اس کی یہ حالتِ قرآن ختم نہیں ہو جاتی۔ یہ خاص حالت پیدائش قمر کہلاتی ہے اور ایسے دو قرانوں کے درمیان کے عرصے کو قمری مہینہ کہتے ہیں جو ۲۹ دن ۱۲ گھنٹے ۴۴ منٹ اور ۸۷ء۲ سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمیں چاند کا مدھم روشن حصہ نظر آنے کے لئے کچھ وقت کا گزرنا ضروری ہوتا ہے جو عام طور پر بیس گھنٹوں کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اگر پیدائش قمر نصف شب سے ذرا بعد میں ہو تو یہ چاند اگلے دن غروبِ آفتاب تک ۱۸ گھنٹوں کی عمر کا ہو گا۔ اگر اس دن موسم عمدہ ہوا اور افق مغرب پر مناسب وقت (جو تیس منٹ سے کم نہیں) تک چاند رہا یہاں تک کہ اسے رات کی روشنی نے مدھم نہ کر دیا تو اس کا نظر آجانا ممکن ہوتا ہے مگر یہ سب شرائط کسی ایک مقام کے لئے ایک وقت میں شاذ و نادر ہی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں مختلف مقامات پرغروبِ شمس و قمر میں جو وقت کا اختلاف ہے اس کا خیال بھی رکھنا ہو گا چونکہ اسلامی مہینے کی ابتداء اس دن سے شمار ہوتی ہے جو ظہور قمر کے بعد اگلی صبح سے شروع ہوتا ہے، اس لئے یہ نہایت ہی ٹیڑھے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تمام مسلم ممالک کے لئے وہی ایک دن کیسے مقرر کریں۔ اس معاملے میں ہمیشہ سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ تمام دنیائے اسلام کے اندر اسلامی مہینے کی ابتداء میں وحدت کے ،مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں اگر ہم واقعی صدق دل سے خواہش مند ہوں تو بہرحال کئی ایسے ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم ان دقتوں اور مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور عمدہ بات ہو گی کہ تمام دنیائے اسلام کے مسلمان متحدہ طور پر ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دِن مذہبی تہوار منائیں۔ چنانچہ اسلامی رصد گاہ کا یہ کام ہو گا کہ وہ حرکات شمس و قمر کا حساب رکھے گی اور تمام اسلامی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں ظہورِ ہلال کی امکانی صورت کا