کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 36
کے ترجمے کئے اور اس کو بنیاد بنا کر اس کے مختلف شعبوں میں معتد بہ اضافہ کیا۔ موجودہ علمِ سائنس نے، جس میں فلکیات اور فضائے بسیط کے علوم بھی شامل ہیں، فی زمانہ حیران کن ترقی کی ہے۔ یہ دونوں علوم ترقی کے میدان میں نہ صرف آگے بڑھے ہیں بلکہ دیگر علوم سے گوئے سبقت لے گئے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کے لئے نہ صرف ضروری ہو گیا ہے بلکہ ان کے لئے یہ لابدی امر ہے کہ موجودہ وسائل اور اہلیت کے ساتھ اپنی خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور نہایت سریع سائنسی ترقی کے شانہ بشانہ چلنے کی سعی کریں۔
رصدگاہ کا قیام: دنیا بھر کے مسلمانوں نے اب شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ ہجری کیلنڈر اور عربی مہینوں کی اہم تاریخوں کی تعیین میں جو الجھنیں اور غیر یقینی حالت ہے وہ (اس ظاہر کی دنیا میں) اسلام کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ مسلمان ہمیشہ کوشاں رہے ہیں کہ کسی طرح اس مشکل کو حل کر سکیں اور اس کے عمدہ حل میں جو بھی دقتیں ہیں انہیں دور کرنے میں ایسے طریق اختیار کیے جائیں جو دین اسلام کی روح اور قرآنی تعلیمات سے ٹکراتے نہ ہوں۔ اس دیرینہ اختلافی مسئلہ کو جو ہزاروں مسلمانوں سے متعلق ہے، رابطہ عالم اسلامی (مکہ) نے پوری طرح محسوس کیا ہے۔ کئی جلسوں میں اس مسئلے پر طویل بحث مباحثوں کے بعد مکہ کے قریب ایک اسلامی رصد گاہ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ رصد گاہ رابطہ کو سائنسی بنیادوں پر فلکیاتی مشاہدات اور بالکل صحیح حساب کے ذریعے کئی مسائل کے حل کرنے میں مدد دے گی۔ یہ ایک ادارے کی حیثیت سے ہو گی جسے مسلم ممالک کے سائنس دان استعمال کر سکیں گے اور اس کام میں حصہ لے سکیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سائنسی ادارے کے قیام پر، جو تمام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہو گا، غیر صحت مند دماغوں کے حامل لوگ اسلام پر حملہ آور ہونے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھیں گے۔ مگر یہ ادارہ ایسے لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات کہ اسلام غیر ترقی یافتہ اور قدیم مذہب ہے کھُرچ کر نکالنے میں مکمل طور پر کوشاں رہے گا۔
اسلامی منشا و مقصد اور اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت کے پیش نظر شاہِ فیصل نے رابطہ کے لئے مکمل تائید و حمایت کا اظہار کیا ہے، اور رصد گاہ کے لئے مناسب جگہ اور اس منصوبے کو فوری طور پر قابلِ عمل بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ رابطہ نے اس ذمہ داری کو فوری طور پر اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں رابطہ نے عالمِ اسلام کے ماہرین فلکیات کو دعوت دی جو پچھلے رمضان میں تین دن تک مکہ مکرمہ میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اس منصوبے کی تنفیذ کے لئے تدابیر اور