کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 35
سے سورج کی جو حرکت بنتی ہے اور فضائی بسیط کے بڑے دائرے میں ان سب کی سالانہ حرکات معلوم کر لی تھیں اور اس کی مدد سے انہوں نے ان ستاروں کے محیط معلوم کر لیے تھے۔ ستاروں کے طلوع و غروب کے اوقات میں مشاہدات کی مدد سے وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ انہوں نے زرعی موسموں کے وقوع اور موسمی مظاہر میں تھوڑا بہت تعلق جان لیا تھا۔ اسلام کی روشنی پھیلنے کے ساتھ بنیادی علوم اور ایمان کی بدولت مسلمان قدرت کے نظام کو سمجھنے اور کائنات کے فلسفہ کی کنہ میں جانے کے لئے بہت دلچسپی لینے لگے۔ عبادات کے ضمن میں انہوں نے نماز کے لئے مختلف مقامات پر اوقات کی تعیین میں اپنی وسعت علم سے کام لیا۔ اسی طرح انہوں نے حج کے ایام اور صحیح سمت قبلہ معلوم کرنے میں پوری تندہی دکھائی۔ جوں جوں اسلام پھیلتا گیا مختلف ممالک میں مسلمانوں نے طول بلداور عرض بلد کے علاوہ دن کے مختلف اوقات کے لئے فلکیاتی مشاہدات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا۔ عہد عباسی میں مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں میں کئی فلکیاتی رصد گاہیں قائم کی گئیں۔ یہ رصد گاہیں اندلس، سمر قند اور ان کے درمیان بغداد، دمشق، قاہرہ، اسکندریہ اور مراغہ کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی قائم ہوئیں۔ ان سائنسی اداروں نے ستاروں کی چمک، پوزیشن، حرکات اور دوائر حرکات کے مشاہدات کے ضمن میں بہت اچھا رول ادا کیا۔ ابن یونس، زرقا فی الطواسی، خوارزمی اور ابو الوفاء کے مشاہدات اور جد اول مسلمانوں کے اس میدان میں سعی و عمل کے نمونے ہیں۔ بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے اس علم میں طول بلد و عرض بلد اور زمین کے میط کی تعیین جیسے جغرافیائی علوم بھی شامل کر لیے۔ عرب ماہرین فلکیات اپنے مشاہدات کے لئے اپنے بنائے ہوئے جو صحیح ترن مختلف آلات استعمال کرتے تھے ان میں اسطرلاب اور مزولہ بہت مشہور ہیں۔ جب تمام یورپ خوابِ غفلت میں سو رہا تھا۔ تب یہ گراں قدر علمی کام کئی صدیوں تک مسلمان ہی سر انجام دیتے رہے۔ یہ درحقیقت اس سلسلۂ علم کا ایک مضبوط حلقہ تھا جس کی پہلی کڑیاں یونانی، مصری، کلدانی، اہل فارس اور چینیوں کے علاوہ دیگر مختلف تھیں جن کو آج کوئی نہیں جانتا۔ اس عظیم نیک نامی والے سائنسی عہد کے بعد ایک لمبے عرصے تک مسلمان غیر فعال بن گئے ان پر تنزل طاری ہو گیا اور اس عرصہ میں کوئی قابل قدر کام سر انجام نہ دے سکے۔ اب صرف چند رصد گاہوں کے کھنڈرات باقی ہیں اور ایسی بہت سی رصد گاہیں اس دنیا سے ناپید ہو چکی ہیں۔ اس عرصے میں ان کے مشاہدات اور سارا علم اہلِ یورپ نے اچک کر لیا، مختلف زبانوں میں اِس