کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 32
یا کچوکا دیتے تو میں ان کو لقمہ دیتا حالانکہ ہم دونوں نماز میں ہوتے تھے۔ کنت اصلی الی جانب نافع بن جبیر بن مطعم فیغمز فی فافتح علیه ونحن نصلي (موطا مالك) جیسے نمازی قاری کا عین نہیں ہے اور اس کا لقمہ جائز ہے اسی طرح قرآن بھی گو قاری (امام نماز) کا عین نہیں ہے تاہم امام اس سے لقمہ لے سکتا ہے۔ بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اور تابعین قرآن مجید کھول کر پڑھنے کے حق میں نہیں تھے، جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما (عمدۃ الرعایۃ ص ۱۶۴، ۱ بحوالہ ابی داؤد) سلیمان حنظلی، ابو عبد الرحمٰن، امام نخعی، مجاہد، عامر، قتادہ اور حماد (مصنف ابن ابی شیبۃ ص ۳۳۸، ۲) اور حضرت سفیان (قیام اللیل ص ۱۶۸) لیکن مرفوع احادیث سے ان کی تائید نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی منع کی دلیل وہی ہو جو حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ اور وہ جیسی کچھ ہیں آپ کے سامنے ہے۔ امام محمد بن سیرین کا ارشاد ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا تھا یعنی صحابہ و تابعین میں۔ لا یُری بأسا ان یوم الرجل القوم یقرء فی المصحف (مصنف ص ۳۳۸، ۲) حضرت عائشہ کا غلام قرآن کھول کر نماز پڑھایا کرتا تھا۔ کانت عائشة یؤمھا عبدھا ذکوان من المصحف (بخاری باب امامة العبد والمولي تعليقا ص ۹۶،۱) بنت طلحہ حضرت عائشہ بھی کسی کو لڑکے یا شخص سے کہتی تھیں کہ قرآن سامنے رکھ کر رمضان میں ان کو نماز پڑھائیں۔ عن عائشة ابنة طلحة انھا كانت تامر غلامًا او انسانًا يقرؤ في المصحف يؤمھا في رمضان (مصنف ص ۳۳۸،۲) حضرت حسن بصری اور حضرت محمد بن سیرین کا بھی یہی مذہب تھا۔ قالا لا باس به (مصنف ص ۳۳۸،۲) حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شیخ اور استاذ حضرت طاء بن ابی رباح کا بھی یہی نظریہ تھا۔ قال لا باس به (ايضا) یعنی جب حافظ نہ ملے۔ حضرت انس نماز پڑھتے، ان کا لڑکا قرآن کھول کر پیچھے کھڑا ہو جاتا اور جب حضرت انس رضی اللہ عنہ اٹک جاتے تو وہ انہیں لقمہ دیا کرتا: کان انس یصلی وغلامه يمسك المصحف خلفه فاذا لقايا في آية فتح عليه. (مصنف ابن ابي شيبة ص ۳۳۸، ۲)