کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 31
فقبضت رجل الحديث (صحيحين عن عائشة)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: حضور نفل پڑھ رہے تھے اور سامنے سے دروازہ بند تھا۔ میں آئی اور دروازہ کھولنے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے چل کر دروازہ کھول دیا، قبلہ سامنے پڑتا تھا۔
قالت کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلی تطوعا والباب عليه مغلق فبحئت فاستفتحت فمشي ففتح لي ثم رجع الي مصلاه وذكرت ان الباب كان في القبلة (ابو داؤد باب العمل في الصلوٰة ص ۹۲، ۱)
حضور کا ارشاد ہے کہ نماز میں سانپ یا بچھو آجائے تو اس کو مار ڈالو۔
اقتلوا الاسودین فی الصلوٰۃ، الحية والعقوب (ایضاً)
باقی رہی دوسری وجہ، یعنی دوسرے سے تلقین والی بات تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ قرآن دوسرا ہے ہی نہیں: بلکہ نماز قرآن کی قرأت کے لئے ہے۔
انما الصلوٰۃ لقرأۃ القراٰن الحدیث (ابو داؤد)
بلکہ سورت فاتحہ کو حضور نے نماز سے تعبیر فرمایا تھا: قسمت الصلوٰۃ الحدیث۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اور کچھ بھول گئے، بعد میں ایک صحابی نے کہا کہ آپ فلاں آیت چھوڑ گئے ہیں، فرمایا: تو نے یاد کیوں نہ کرایا۔
کان یقرأ فی الصلوٰۃ فترک شیئا لم یقرأ فقال له رجل يا رسول اللّٰه تركت اية كذا وكذا فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ھلا ذكر تنبيھا (رواه ابو داؤد و عن المسعود)
اسی طرح حضرت ابی بن کعب سے فرمایا کہ کیوں نہ بتایا:
صلی صلوٰۃ فقرأ فیھا فلبس علیه فلما انصرف قال لاُبّی اصلیت معنا قال نعم قال فما منعک (ابو داؤد باب الفتح علی الامام فی الصلوٰۃ ص ۹۱، ۱)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور کے عہد میں امام نماز کو لقمہ دیا کرتے تھے۔
کنا نفتح الائمة علٰی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (رواہ الحاکم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت نافع اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے غلام حمران نماز میں لقمہ دیا کرتے تھے۔
قال نافع صلي بنا ابن عمر فتردد ففتحت عليه فاخذ (ابن ابي شبته)
حمران يصلي خلف ثمان فاذا توقف فتح عليه (الاصابة لابن الحجر)
یزید بن رومان کہتے ہیں کہ میں نافع بن جبیر کے پہلو میں نماز پڑھتا تھا، تو وہ مجھے ہاتھ سے دباتے