کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 30
ولو نظر الی مکتوب وفھمد فالصحیح انه لا تفسد صلوته بالاجماع (ھدايه ص ۱۳۸، ۱)
اور اس سے دلچسپ سنیے! فرماتے ہیں:
لو نظر الی فرج المطلقة الرجعية بشھوة يصير مراجعا ولا تفسد صلوته فے المختار (صغيري شرح منية المصلي ص ۲۳۲)
نیز فرمایا:
لو قبلت المصلی امراته ولم يقبلھا فصلوٰته تامة (منية)
ترجمہ: کسی دیدہ ور بزرگ سے کرا لیجئے! پھر غور فرمائیے! عمل کثیر کا جو بہانہ بنایا ہے، اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ مزید سنیے:
اگر نمازی کے پاس روڑا تھا اور وہ اس نے پرندے کو دے مارا تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔
ولو کان معه حجر فرمی به الطائر او نحوه لا تفسد صلوته (كبيري ص ۴۲۴)
نیز ارشاد ہے کہ: اس صف کو چھوڑ کر اگلی صف میں خالی جگہ پر نمازی چلا جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔
وبعض المشائخ قالوا فی رجل رای فرجة في الصف الثاني فمشي اليھا لا تفسد صلوٰته (منية المصلي مع صغيري ص ۲۳۳)
نماز میں قرآن کھول کر پڑھنا ہمارے نزدیک مفسدِ نماز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل کثیر ہے جو نماز کے لئے ہے، کسی اور محرک کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ رکوع و سجود، تشہد اور رکعتوں کے لئے اُٹھنا بیٹھنا کوئی عمل کثیر نہیں ہے یہ بھی نہیں ہے۔ ظہر یا عصر کی نماز میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوش مبارک پر اٹھا کر نماز پڑھائی۔ سجدہ یا رکوع کو جات وقت اسے رکھ دیتے، اُٹھتے وقت اسے بھی اُٹھا لیتے اور دوش پر سوار کر لیتے۔
قال ابو قتادة رايت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم يصلي للناس وامامة بنت ابي العاص علي عنقه فاذا سجد وضعھا (ابو داؤد باب العمل في الصلوٰة ص ۹۲، ۱) (في روايته: بينما نحن فنتظر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم للصلوٰة في الظھر والعصر الحديث ( ص ۹۲، ۱)
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ فرماتی ہیں، آپ نماز پڑھتے ہوتے اور میں سامنے دراز پڑی سو رہی ہوتی تھی۔ جب آپ سجدہ کو جاتے تو مجھے ہاتھ سے دباتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔
انه صلی اللّٰه علیہ وسلم كان يصلي وانامعترضة بين يديه فاذا سجد غمزني