کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 29
سزا وار اقرء (جسے قرآن بہت آتا ہو) یا ’اعلم‘ (بہت بڑے عالم) ہے: یؤم القوم اقرءُھم لكتاب اللّٰه تعالٰي فان كانوا في القراءة سواء فاعلمھم بالسنة الحديث (رواه مسلم) وفي رواية احقھم بالامامة اقرأھم (روا مسلم عن ابي سعيد) امامت کا سب سے بڑا حقدار وہ ہے جو ان میں سب سے بڑا قاری ہو۔ اس لئے جو شخص اپنے نجی مصالح کے لئے اس کی راہ روکتا ہے، غلط کرتا ہے۔ تنبیہ: چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ، نماز میں قرآن کھول کر پڑھنا جائز ہے یا نہ؟ اس میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع پر اِس کی بھی وضاحت کر دی جائے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز میں قرآن کھول کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ واذا اقرأ الامام من المصحف ضدت صلوٰته فمدت صلٰوته عند ابي حنيفة رحمہ اللّٰه (ھداية باب ما يفسد الصلوٰة وما يكره فيھا ص ۱۳۷، ۱) یہاں امام کی قید اتفاقی ہے، مقتدی بھی ایسا کرے تو فاسد ہو جائے گی۔ قال صاحب النھاية قید الامام اتفاقی انتھی فیعلم ان قرأۃ المقتدی من المصحف ایضاً مُفسدٌ (حاشیه نمبر۱۱، ہداية ص ۱۳۷، ۱) شرح وقایہ میں بھی اس کو مفسد نماز قرار دیا گیا ہے۔ وقراءته من مُصحفٍ (يفسدھا) (شرح وقايه ص ۱۶۴، ۱) وان قرأ المصلی القراٰن من مصحف او من المحراب تفسد صلوته (منية المصلي مع صغيري ص ۲۳۱) اس کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ قرآن کھول کر اسے دیکھے گا، دیکھ کر پڑھے گا، ورق اُلٹائے گا۔ یہ عمل کثیر ہے اور یہ مفسد نماز ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ غیر سے تلقین قبول کرنے والی بات ہے جو مفسد نماز ہے۔ ولابی حنيفة ان حمل المصحف وانظر فيه وتقليب الاوراق عمل كثير ولانه تلقن من المصحف فصار كما اذا تلقن من غيره (هداية ص ۱۳۷، ۱) امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ جو امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں، وہ فرماتے ہیں، یہ مکروہ ہے، مفسد نماز نہیں ہے۔ وَقَالَا ھِیَ قامة (هداية) یہ لطیفہ بھی ملاحظہ فرمائیے! احناف کا کہنا ہے کہ اگر قرآن کے بجائے کوئی اور کتاب یا مکتوب نماز میں دیکھا اور اسے سمجھا بھی تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔