کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 27
یعنی چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، نہ عید کرو، دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر ہی عید کرو۔ جواب (سوال نمبر ۳): حکومت وقت ویسے تو جو چاہے کرے، غلط یا صحیح، بجز پارلیمانی طریقے کے، اس کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ اسلامی ریاست ہو، اسلامی معروف کی محافظ اور ’منکر‘ کی مخالف ہو تو اس کے فرامین کی اطاعت کرنا دینی فریضہ ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کے اظہار کے باوجود اس کے خلاف ایسی مزاحمت کا مظاہرہ کرنا، جو ملک و ملت کے مستقبل کے لئے تشویش کا باعث ہو، جائز نہیں ہوتا۔ ہاں حکمران کی ذاتی صوابدید سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ خاص کر معصیت میں ان سے ’عدمِ تعاون‘ کارِ ثواب ہوتا ہے۔ جہاں مرضی کا اسلام اختیار کرنے کی رِیت ہو اور ’اَفَکُلَّمَا جَآءَكُمْرَسُوْلٌ بِمَا لَا تَھْويٰ اَنْفُسُكُمْ اسْتَكْبَرْتُمْ‘ (جب جب تمہارے پاس کوئی رسول، تمہاری اپنی خواہشوں کے خلاف حکم لے کر آیا تم اکڑ بیٹھے) کا سماں طاری رہتا ہو، وہاں اضطراراً اطاعت کا تکلف تو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن قلبی انشراح اور انبساط کے ساتھ ان کی غلامی کے طوق کو گلے کا ہار بنانے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جو ایسا کریں گے قیامت میں اپنی انگلیاں کاٹیں گے، تڑپیں گے اور پچھتائیں گے مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی جائے گی، خدا سے کہیں گے کہ الٰہی! ہم نے اپنے سربراہوں اور بڑوں کا کہا مانا اور اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ ہی کر ڈالا۔ الٰہی ان پر دگنا عذاب نازل کر اور ان پر لعنت کا مینہ برسا۔ ﴿قَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا السَّبِيْلَا٭ رَبَّنَا اٰتِھِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنَھُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا﴾(سورت احزاب ع ۸) بہرحال کل جو یہ لا حاصل واویلا کرنا ہے، آج ہی ہوش کریں تو کیا اچھا نہ ہو گا؟ خاص کر جب سارے دین کے بجائے بعض دینی امور کے اپنانے کے لئے وہ میدان میں اتر پڑتے ہیں تو یقیناً ’’دال میں کچھ کالا‘‘ ضرور ہوتا ہے۔ نجی قسم کی چارہ سازی نہ سہی، وہم پرستی اور سستی جنت کا سودا تو ضرور کار فرما ہوتا ہو گا۔ اس صورت میں، ہمیں ان کی کسی ’محنت یا سفارش‘ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اسلامی سربراہ ریاست بھی علمی اور تحقیق امور میں اپنی رائے کا اظہار تو کر سکتا ہے، اس کے لئے اصرار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں زوال کے بعد چاند دیکھ کر کچھ لوگوں نے روزہ توڑ دیا لیکن حضرت عثمان نے نہیں توڑا تھا۔ راہ الناس فی زمن عثمان فافطر بعضھم فقال عثمان اما انا فمتم صیامی الی اللیل