کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 26
چاند کو دیکھے بغیر خاص کر جب مطلع بھی صاف ہو، محض جدید فنی طریقوں سے چاند مشخص کرنے کے فیصلہ پر قناعت کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس سے وہ فطری سادگی، آسانی اور بے ساختہ پن غارت ہو جائے گا جو ملک و ملت کی اکثریت کے حالات کو ملحوظ رکھ کر اسلام نے وضع اور عطا کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ فلاں جگہ ہم نے چاند موٹا تازہ دیکھا تو کسی نے کہا دوسری کا ہے، کسی نے کہا تیسری کا ہے، ابنِ عباس نے فرمایا کہ:
ان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم امدہ الی الروية (مسلم، دار قطني وغيرھما)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے رؤیت (دیکھنے) تک دراز کر دیا ہے۔
یعنی نظر نہیں آیا تو ان تکلفات میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، جب نظر آیا ہے تبھی سے اِس کو شمار کر لینا۔ چھوٹے بڑے ہونے کے چکروں میں نہ پڑو۔ خاص کر حضور کا یہ فرمانا کہ اگر کسی مانع کی بنا پر نظر نہیں آیا تو شعبان یا رمضان کے تیس دن پورے کر لیا کرو۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ باقی تمام مصنوعی تکلفات سے آزاد کر دیتا ہے۔ بشرطیکہ ان متکلفین کو سمجھ میں آجائے۔
جو کام کرنے کے ہیں اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن جب روزوں اور عیدوں کا معاملہ آتا ہے تو ماہِ مبارک کی سرپرستی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کی ان کو توفیق نہیں ہوتی کہ ماہِ رمضان کے احترام کے لئے کوئی مؤثر اقدام کریں۔ لیکن اس کے چاند کی حد تک خم ٹھونک کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ انداز بعض نجی مصالح کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے یا محض سستی بخشش کے لئے ایک حیلہ سازی ہے جس کی بہرحال فریب نفسی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ: اتفاق اور اختلاف مطالع میں شک پڑ جائے تو پھر کوئی کیا کرے، روزہ رکھے یا نہ؟ امام نووی لکھتے ہیں کہ: جب تک چاند نہ ہو، تب تک رمضان کا روزہ واجب نہیں ہوتا۔ یہ اصل اور بنیادی بات ہے، اس لئے اسی اصل کے مطابق معاملہ رہے گا۔ یعنی روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔
فان شک فی اتفاق المطالع لم یجب الصوم علی الذیب لم یروا، لان الاصل عوّام الوجوب (روضة الطالبين ص ۳۴۹، ۲)
اس ’اصل‘ کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ (صحیحین۔ عن ابن عمر)
وفی رواية: صُوْمُوْا لرؤيته وافطروا الرؤيته (صحيحين۔ عن ابي ھريره)