کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 25
جو حکم اور اس سے عہدہ بر آ ہونے کا طریق، ان سے بالا تر ہوتا ہے، وہ تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے جو جائز نہیں ہے۔ یہاں رویت بصری ان سے چھین کر ان سے ’رویت علمی‘ کے تقاضوں کی تعمیل کا مطالبہ ’روح اسلام‘ کے خلاف ہے۔ اس لئے امام زیلعی فرماتے ہیں کہ ہر قوم سے ان کے حسبِ حال خطاب کیا جاتا ہے۔ کل قوم مخاطبون بما عندھم۔ امام ابن رشد فرماتے ہیں کہ: حساب اور علمِ ہیئت کی رُو سے چاند کی تشخیص حدیث کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کا نتیجہ ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ حساب کرو وہ اس کے معنی کرتے ہیں کہ شمس و قمر کے فنی حساب سے مدد لی جائے، دوسرے کہتے ہیں کہ: یہ لفظ مجمل ہے، دوسری روایت میں مفسر آیا ہے تیس دن پورے کرو۔ اس لئے مفسر کے خلاف معنی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ فذھب الجمھور الٰي ان تاويله اكملوا العدة ثلثين ومنھم من رَاَي ان معني التقدير له ھو عده بالحساب ومنھم من رَاَي ان معني ذٰلك ان يصبح المرء صائما وھو مذهب ابن عمر كما ذكرنا..... وذلك مجمل وھذا (حديث ابن عباس) مفسر فوجب ان يحمل المجمل علي المفسر وھي طريقة لا خلاف فيھا بين الاصوليين.... فما ذھب الجمھور في ھذا الائح واللّٰه اعلم (بداية ص ۲۸۴، ۱) حضرت قاسم اور سالم بن عبد اللہ سے لوگوں نے کہا کہ ’استارہ کے علاقہ میں چاند ہو گیا ہے۔ آپ نے کہا ہمیں کیا؟‘ قال عبد اللّٰه بن سعید ذکروا بالمدینة رؤية الھلال وقالوا ان اھل استارة قَدَ رَاوه فقال القاسم وسالم ما لنا ولاھل الاستارة (مصنف ابن اي شيبة ص ۷۹، ۳) الحاصل ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ: عوام کی سہولت کے لئے اگر رؤیت ہلال کمیٹی بنا دی جائے تو اس میں حرج کوئی نہیں، لیکن اس کو اس سلسلے کے شرعی طریق کار کا پابند رہنا ہو گا۔ معروف شرعی طریق کار کے مطابق شہادتوں اور مقاماتِ ہلال رمضان یا ہلالِ عید کی تفصیل سے مطلع کرنا اس کے لئے ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ رویت ہلال کمیٹی نے اس کے لئے جو طریق کار خود وضع کیا اس کی تفصیل سے بھی ملت اسلامیہ کو آگاہ کرنا ہو گا۔ اختلاف مطالع کی تعیین اور تشخیص کیا کی؟ اس کے سامنے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ سب کچھ بتانا ہو گا کیونکہ ہمارے لئے اختلاف مطالع کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ بہت سے لا ینحل سقم پیدا ہو جائیں گے۔