کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 24
لیکن یہ روایت کمزور ہے، اس کا ایک راوی عبد الاعلیٰ ابن عامر الثعلبی ہے جو متکلم فیہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ مغرب سے آیا ہے، لیکن چاند اس نے کہاں دیکھا؟ اس کا کچھ ذکر نہیں ہے، راستہ میں یا اپنے علاقہ میں؟ ویسے بھی یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظریہ کے خلاف ہے،ان کے نزدیک ہلال رمضان کے لئے دو گواہ ضروری ہیں، امام دار قطنی فرماتے ہیں ثعلبی کی روایت سے یہ زیادہ صحیح بھی ہے۔ عن شقيق قال جاءنا كتاب عمرو نحن بخانقين قال في كتابه ان الاحلة بعضھا اكبر من بعض فاذا رايتم الھلال نھارا فلا تفطروا حتي يشھد شاھد ان وفي رواية حتي يشھد شاھد ان انھما رَاَيَاهُ بالامس وفي رواية: الا ان يشھد رجلان مسلمان انھما اھلاه بالامس عشيّة (ابن ابي شيبة ص۶۹، ۳ و دار قطني باب الشھادة علي رويته الھلال ص ۲۳۳-۲۳۲،۱ وحديث ابي وائل اصح اسناد عن عمر منه (دار قطني ص ۲۳۲، ۱) حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ: احکام دینیہ کی بناء ظاہر پر ہے، تعمق اور حساب وغیرہ پر نہیں ہے بلکہ شریعت اس امر کی سفارش کرتی ہے کہ ان کی اہمیت کم کی جائے۔ یہ بات روزے کے باب میں اہم مقصد سے ہے کہ تعمق کے جتنے ذرائع ہیں اور ان متعمقوں نے جتنی باتیں گھڑی ہیں ان کا کھل کر رد کیا جائے، کیونکہ شریعت سے پہلے یہود میں بھی یہ سلسلے جاری تھے، تعمق یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر کو فرض سمجھ لیا جائے۔ مَبْنَي الشرائع علي الامور الظاھرة عند الاميّين دون التعمق والمحاسبات النجومية بل الشريعة واردة باخمال ذكرھا..... واعلم انّ من المقاصد المحمة في باب الصوم سد ذرائع التعمق ورد ما احدثه التعمقون فان ھذه الطاعة كانت شائقة في اليھود والنصاريٰ ومتحنثي العرب..... واصل التعمق ان يوخذ موضع الاحتياط لازما رجحة اللّٰه البالغة ص ۳۹، ۲ احكام العلوم) شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دین اور شرائع کو فن بنانے کی کوشش نہ کی جائے، اصل مقصد تعبد اور سچی پیاس کے ساتھ رب کی غلامی اختیار کرنا ہے، اور اس کا تقاضا صرف ’تسلیم و رضا‘ ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ تجربات اور عقل و ہوش کو نظر انداز کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ تعمیل حکم کا محرک یہ اور وہ تجربات اور فنی گورکھ دھندے نہ ہوں بلکہ صرف رب کے حکم کی تعمیل کا جذبہ ہو۔ جہاں عقل اور تجربات کو اس پر حاکم بنا لیا جاتا ہے وہاں اصل دین میں ترمیمات شروع ہو جاتی ہیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے ہاں ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کے فرامین، عوامی استعداد اور ذرائع کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں اس لئے