کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 23
اور خراسان کے مابین جتنا فاصلہ ہے، اتنے فاصلہ پر ’مطالع‘ مختلف ہو جاتے ہیں، بغداد، کوفہ، رے اور قزوین کے مابین جو فاصلے ہیں وہ متقارب مطالع ہیں۔
دوسرا یہ کہ: ہر اقلیم مثلاً ایران، پاکستان، عراق، مصر ہر ایک اقلیم ہے۔ اقلیم، دنیا کے ساتویں حصے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں پہلے معنی مراد ہیں: گویا کہ ہر ملک سارے کا سارا ایک مطلع ہے۔ ملک کے کسی حصے میں چاند نظر آجائے وہ سارے ملک کے لئے ہو گا۔
تیسرا یہ کہ: جتنے فاصلے پر نماز قصر ہو سکتی ہے، اتنے فاصلے پر اختلاف مطالع شروع ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک پہلا مسلک اقرب الی الصواب ہے، امام نووی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔
وفی ضبط البلاد ثلثة اوجه: احدھا وبه قطع العراقيون والصيد لاني وغيرھم ان التباعد ان تخلف المطالع كالحجاز والعراق وخراسان والمتقارب ان لا تختلف كبغداد والكوفة والراي وقزوين والثاني اتحاد الاقليم واختلافه والثالث: التباعد مسافة القصر..... قلت: الاصح ھو الاول (روضة الطالبين للنووي ص ۳۴۸،۲)
بعض شارحین حدیث نے جدید ہیئت اور جغرافیہ کی رُو سے اختلاف مطالع کے لئے (۳۲ منٹ) کا اعلان کیا ہے اور مشرق کی جانب چاند کا تعلق ۵۶۰ میل تک بڑھا دیا ہے واللہ اعلم (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب رؤیت الہلال)
فرض کیجئے ایک شخص پہلے عید کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے اس علاقے میں جا پہنچتا ہے جہاں ابھی چاند نہیں ہوا تو اس کو مقامی حضرات کے تابع چلنا ہو گا۔ یہی حال نماز کا ہے: قال انور شاہ: وظن انه يمشي علي رويته من يتعيد ذلك الرجل فيھم وقست ھذه المسئلة علٰي ما في كتب الشافعية من صلي الظھر ثم بلغ في الفور بموضع لم يدخل فيه وقت الظھر الي الاٰن انه يصلي معھم ايضا (ص ۲۸۶)
بعض روایات میں آتا ہے کہ جنت البقیع میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عاذب چاند دیکھ رہے تھے کہ ایک سوار آپ کو ملا۔ پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ بولے: مغرب سے۔ پوچھا: کیا آپ نے چاند دیکھا ہے، اس نے کہا ہاں: آپ نے کہا! اللہ اکبر! مسلمانوں کو ایک آدمی (گواہ) کافی ہے۔
عن عبد الرحمٰن بن ابي ليلٰي قال كنت مع البراء بن عازب وعمر بن الخطاب في البقيع ينظر الي الھلال فاقبل راكب فتلقاه عمر فقال من اين جئت قال من المغرب فقال اھللت؟ قال نعم قال عمر: اللّٰه اكبر انما يكفي المسلمين الرجل الواحد۔ رواه احمد۔