کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 21
اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ: چھوٹے بڑے چاند کو دیکھ کر بھی یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کل کا ہے یا آج کا: کما فی مسلم۔ لا اعتبار لکبر الھلال وصغرہ کما رواہ مسلم (القول المنثور ص ۴) اگر کوئی خوش نصیب خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتا ہے کہ آپ نے چاند ہونے کی اطلاع دی ہے تو بھی کہنے والے کی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ لا عبرۃ لقول من قال اخبرنی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی المنام بان اللیلة اول رمضان (القول المنثور ص ۴) یہ اس لئے کہ خود حضور کا یہ ارشاد ہے کہ دیکھ کر رکھا کرو۔ انما الاعتبار للروية (ایضا ص۴) امام سبکی شافعی، امام ابن و ہبان، امام ابن سریج، مطرف بن عبد اللہ، قفال، قتیبہ، امام احمد اور زرکشی حسابی طریقِ کار سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا استدلال فان غم علیکم فاقدرو له (بخاري مسلم) (بادل ہوں تو اندازہ کر لیجیے) ہے۔ جس کا مطلب انہوں نے ریاضی اور ہیئت کا خصوصی طریق کار لیا ہے۔ مگر یہ محل نظر ہے، کیونکہ دوسری روایات میں تصریح آئی ہے کہ تیس دن پورے کر لیا کرو۔ بعض میں احصوا (شمار کر لیا کرو) بھی آیا ہے۔ جس کے بھی یہی معنی ہیں کہ دن تیس پورے کر لیا کرو۔ قوله ناقدر وله اي اكملوا عدته ثلٰثين كما في رواية اخريٰ (فيض الباري ص ۱۵۲، ج۳) امام مالك رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام شافعی اور سلف اور خلف کے جمہور، اسلام کے اسی فطری انداز اور قدرتی طریقِ کار کو ماہرین فلکیات کے فنی انکشافات جیسی سر دردی اور تکلف پر قربان کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لئے ائمۂ دین کی اکثریت نے ان کے دلائل پر تفصیلی تبصرے کئے ہیں۔ امام زاہدی نے قنیہ میں تین قول نقل کیے ہیں۔ ایک قاضی عبد الجبار، مصنف جامع العلوم اور ابن مقاتل کا کہ وہ حساب دانوں کے قول پر اعتماد کیا کرتے تھے، پھر امام سرخسی کا کہ یہ: بعید از تحقیق ہے۔ اور امام حلوائی کا ہ: شرط بہرحال رویت ہلال ہے، علمائے فلکیات کا قول نہیں۔ اخیر میں امام مجد الائمۃ ترجمانی کا کہ اصحاب ابی حنیفہ اور اصحاب امام شافعی نے اس پر اجماع کیا ہے کہ چاند کے سلسلے میں فلکیات کے انکشافات پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ثم نقل عن مجد الائمة الترجماني انه اتفق اصحاب ابي حنيفة الا النادر والشافعي انه لا اعتماد علٰي قولھم (القول المنثور)