کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 20
علي المذھب. امام اردبیل شافعی فرماتے ہیں: ولا یجب بمعرفة منازل القمر لا علي العارف ولا علي غيره (فتاوي الانوار) شارح ہدایہ لکھتا ہے: لا یعتبر قولھم بالاجماع ولا یجوز للمنجم ان یعمل بحسابه (معراج الدراية) ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ: اگر رویت سے پہلے صرف اپنی فنی تحقیق کے مطابق کوئی روزہ رکھ لیتا ہے یا عید منا لیتا ہے تو وہ نافرمان ہے، قضادے، عمداً افطار پر کفارہ بھی دے، جو اس کو جائز بھی سمجھنے لگتا ہے، وہ کافر بھی ہو جاتا ہے۔ بل اقول لوصام المنجم عن رمضان قبل رؤيته بناء علي معرفته يكون عاصيا في صومه ولا يحسب عن صومه الا اذا ثبت الھلال ولو جعل عيد الفطر بناء علي زعمه يكون فاسقاد يجب عليه الكفارة في قول وھو الصحيح وان استحله كان كافرا (مرقاة شرح مشكوٰة) ایک دفعہ دونوں ہاتھ کی پوری انگلیوں سے اور ایک دفعہ انگوٹھا چھوڑ کر نو انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض ماہ (۲۹) کے ہوتے ہیں پھر تین بار پوری انگلیوں سے اشارہ کر کے سمجھایا کہ بعض ماہ (۳۰) دِن کے ہوتے ہیں، ہم حساب کتاب والی قوم نہیں ہیں۔ انا امة امية لا نكتب ولا نحسب الشھر ھكذا ھكذا ھكذا وعقد الابھام في الثالثة والشھر ھكذا ھكذا ھكذا (مسلم) امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ اہل فلکیات اور ریاضی دانوں کے فارمولوں کی طرف رجوع کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ انما بالغ فی البیان مع الاشارۃ لیبطل الرجوع الي ما عليه المنجمون والحساب..... وقال اكثر ائمتنا لا يعمل بحساب المنجم..... ولا بحساب الحاسب (القول المنثور ص ۴) ائمۂ دین نے یہ بھی صریح کی ہے کہ: اس سلسلے میں دوسرے ذاتی تجربات کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ لا عبرۃ للمجربات في ھذا الباب حتي لو ظھر خلافھا اخذ به (القول المنثور ص ۴) حضرت امام جعفر صادق نے اس سلسلہ کے پچاس سالہ تجربات کا ذکر کیا ہے، علامہ ابن عد الحی بھی فرماتے ہیں میں نے بھی اسی طرح کے تجربات کیے ہیں جو صحیح نکلے ہیں لیکن اس کے باوجود: مع ذلک لا اعتماد عليه (القول المنثور ص ۴)