کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 19
اس کی ضرورت محسوس کی ہے۔ ماہ و سال بنانے کا تعلق چاند سے ہے، موسم، دن، رات اور اوقات کا آفتاب سے۔ اس لئے ہر ایک کا دائرۂ کار جدا جدا ہے۔
رویت ہلال کا اسلامی طریق کار حد درجہ سادہ ہے۔ اس کی رُو سے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ: مطلع پر ظاہر ہونے کے بعد، ایک وقت میں یہ چاند کتنے علاقے اور جغرافیائی حدود پر سایہ فکن ہوتا ہے؟ بس اس خطے کے لوگوں میں سے جب قابلِ ذکر شہادت میسر آجائے تو ان کو روزہ رکھ لینا چاہئے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
جہازوں پر اُڑ کر، یا دور بینیں، خورد بینیں لگا کر اور موجودہ فلکیاتی زائچے کھینچ کر چاند کو مشخص کرنے اور کھینچ لانے کے ہم مکلف نہیں ہیں۔ جو چیز عوامی نہیں ہو سکتی وہ کسی عوامی پروگرام کی اساس بھی نہیں بن سکتی۔
یہ وہ فطری سادگی اور نظامِ رویت ہے، جس میں ایک ریاضی دان کی طرح ایک اَن پڑھ یا دیہاتی بھی یکساں حصہ لے سکتا ہے۔ آخر اس سادگی کو، ایک ایسے فنی تکلف کی بھینٹ چڑھانے میں کیا تُک ہے جو بہرحال کبھی غلط بھی ہو سکتا ہے؟
امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں: رویت ہلال کے سلسلے میں ان فنی تکلفات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
الذی اقول ان الحساب لا یجوز ان یعتمد علیه فی الصوم (تلخیص)
علامہ عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں، اعتبار رویت کا ہے حساب اور تجربہ کا نہیں۔
ان العبرۃ للصوم والفطر في الشريعة للروية لا للحساب والتجربة (الفلك الدوار في روية الھلال بالنھار ص ۳)
یہاں تک کہ اس سلسلے میں اگر علمی طور پر طلوعِ چاند علمائے فلکیات کی نگاہ میں ثابت ہو بھی جائے تو بھی اس کے جواب دہ نہیں، دوسرے کے کیا ہوں گے؟
فالذی علیه الاكثر ھو عدم اعتبار قوله لا في حق نفسه ولا في حق غيره (القول المنثور في ھلال خير الشھور ص۳)
در مختار میں ہے کہ: اگرچہ یہ قابلِ اعتبار لوگ ہوں تب بھی ان کے قول کا اعتبار نہیں ہے۔
لا اعتبار بقول الموقتین ولو عد ولا، علی المذھب
النہر الفائق میں لکھتے ہیں:
لا یلزم بقول الموقتین انه اي الھلال يكون في اسماء ليلة كذا وان كانوا عدولا