کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 17
يَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰهُ بِه كے تحت آجاتے ہیں۔ یعنی فاسق کے یارانے ہی عجیب ہوتے ہیں، جن سے مناسب ہیں ان کی پرواہ نہیں کرتے اور جن سے پرہیز چاہیے، ان میں پیش پیش رہتے ہیں۔
تخریب: فساد فی الارض، ان کی زندگی کا عنوان اور معیار ہوتا ہے۔ عموماً ان کے کام تخریبی ہوتے ہیں۔ روحانی اعتبار سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی۔ لوگوں کو ان سے نفع کم نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ فاسق کی یہ تیسری علامت ہے۔ خدا کے معاملے میں غیر محتاط، بندگان خدا کے سلسلے میں حد درجہ مسرف اور دھرتی کے لئے اس کا وجود، زمین پر بوجھ۔ یہ تین عناسر ہوں تو بنتا ہے فساق۔
دوسرے مقام پر فرمایا: جو منافق ہیں، اصلی فاسق ہیں۔ ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾(پ۱۰. توبہ. ع۹)
یہ فساق اتنے غیر ذمہ دار ہیں کہ عصمت مآب خواتین کے سلسلے کی باتوں میں پڑے رہتے ہیں اور ان پر تہمتیں لگاتے رہتے ہیں، پھر اس پر کوئی شہادت پیش نہیں کرتے۔
﴿اُوْلٰٓئِكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾(پ۱۸. النور. ع۱) یہی لوگ فاسق ہیں۔
جو غیر فطری بدکاری کرتے ہیں وہ فاسق ہیں: ﴿اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سُوْءٍ فٰسِقِیْنَ﴾ (پ۱۷. الانبیاء. ع۵)
فرعون اور اس کی قوم، فاسق قوم تھی: ﴿اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ﴾ (پ۱۹. النحل. ع۱)
خدا فراموش فاسق ہیں:
﴿وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (پ۲۸. الحشر. ع۳)
ان لوگوں جیسے نہ بنو جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ان کی ایسی مت ماری کہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے، یہی لوگ فاسق ہیں۔
جن کو آباؤ اجداد، آل اولاد، بھائی بند، میاں بیوی، کنبہ، مال متاع، کاروبار اور مکانات، اللہ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ عزیز ہیں، وہ بھی فاسق ہیں (پٍ۱۰. توبہ. ع۳)
یہ سب جزئیات ہیں جو انہی تین عناصر سے ماخوذ ہیں جو اوپر کی سطور میں بیان کی گئی ہیں۔
ان کے متعلق قرآن کا اعلان ہے کہ:
﴿اُوْلٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَةُ وَلَھُمْ سُوْءُ الدَّارِ﴾ (پ۱۳. الرعد. ع۳)
یہی لوگ ہیں جن پر (خدا کی) لعنت ہے اور برا ٹھکانا ہے۔
اگر اس قماش کے لوگ کوئی بات سنائیں تو ان پر اعتبار نہ کیجئے! پہلے چھان پھٹک کر لیجئے پھر کوئی قدم اُٹھائیے۔
﴿اِنْ جَآءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَيَّنُوْا﴾ (پ۲۶. حجرات. ع۱)
اگر كوئی فاسق (بد ذات) تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اچھی طرح (اس کو) تحقیق کر لیا کرو۔