کتاب: محدث شمارہ 37 - صفحہ 10
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۳؎فَيَقُوْلُوْنَ مَاذَا اَرَادَ اللّٰهُ بِھٰذَا مَثَلًا (اور یہ بھی يقين ركھتے ہیں کہ) ان كے پروردگار کی طرف سے ہے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس (ذلیل) مثال کے ____________________________________________ ۳؎ وَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (ہاں جو منکر ہیں) ہر وہ آیت جو نازل ہوتی، اس کا وہ انکار کرتے، اس لئے یکے بعد دیگرے انکار کی وجہ سے ان کے کفر و طغیان میں اضافہ ہی ہوتا رہتا تھا۔ قرآن حکیم نے ان کی اسی کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے۔ کفر و طغیان: ﴿وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْھُمْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ﴾(پ۶. مائده. ع۱۰) (تو یہ قرآن) جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کے زیادہ ہونے کا ضرور باعث ہو ا۔ نفرت: ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا وَمَا يَزِيْدُھُمْ اِلَّا نَفُوْرًا﴾ (پ۱۵. بنی اسرائيل. ع۴) اور ہم نے اس قرآن میں (لوگوں کو) طرح طرح سے سمجھایا تاکہ یہ لوگ (کسی طرح سمجھیں، مگر اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی۔ بڑی سرکشی: ﴿وَنُخَوّفُھُمْ فَمَا يَزِيْدُھُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا ﴾(پ۱۵. بنی اسرائيل.ع ۶) اور ہم ان کو (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن ہمارا ڈرانا اس کی سرکشی کو اور زیادہ کرتا ہے۔ قرآن کے ساتھ ان کا معاملہ: جب کوئی سورت نازل ہوتی تو وہ جیسی کچھ حرکتیں کرتے، نہایت عامیانہ ہوتیں مثلاً کہتے: ﴿مَاذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلًا﴾(پ۲۹. المدثر ع۱) ایسی مثال بیان کرنے میں خدا کی کون سی غرض (اٹکی پڑی) تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِذَا مَا اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰي بَعْضٍ ھَلْ يَرٰكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَھُوْنَ ﴾(پ۱۱. توبہ. ع۱۶) اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے، ان میں سے ایک کی طرف ایک دیکھنے لگتا ہے پھر (یہ کہہ کر کہ) کہیں تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں! (اُٹھ کر) چل دیتے ہیں۔ (یہ لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے کیا پھرے) اللہ نے ان کے دلوں کو (دینِ حق سے) پھیر دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو مطلق سمجھ نہیں۔