کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 9
لوگ اس میں کوتاہی کرنے لگیں تو نسب ونسل میں شبہ واختلاط واقع ہوجائے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر اُمّت کے مردوں میں غیرت کا مادہ ودیعت کیا گیاہے اور اس کی عورتوں میں اپنی حفاظت کرنے کا احساس موجود ہوتا ہے۔''
شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
''غیرت انسانی فطرت میں شامل ہے، اور جو غیرت مند نہیں، گویا بدفطرت ہے۔''[1]
اس جذبۂ غیرت کی بنا پر عزت و عِرض کے تحفظ کے لیے جدوجہد کے نتیجے میں قتل ہوجانے والا درجۂ شہادت پر فائز کیا جاتا ہے، فرمانِ نبوی ہے: ((... مَنْ قُتِل دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ)) [2]
''جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت کرتے مارا جائے، وہ شہید ہے۔''
غیرت کاتعلق صرف مردوں سے ہی نہیں بلکہ عورت کے ساتھ بھی ہے جیسا کہ اُمہات المومنین، اپنی سوکنوں کے بارے میں غیرت کھاتیں۔ غیرت کی یہ صورت بعض شرائط کے ساتھ جواز کا پہلو رکھتی ہے، جب کہ ناجائز غیرت میں قبائلی عصبیت اور فرقہ وارانہ مخاصمت شامل ہیں، جن کا شریعتِ اسلامیہ نے کوئی اعتبار نہیں کیا بلکہ اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔[3]الغرض غیرت کرنا ایک محبوب ومطلوب امر ہے، بےغیرتی ناپسندیدہ اور قابل وعید رویّہ ہے۔
'جرائم غیرت' کا مصداق
اسلامی تناظر میں'غیرت'جرم وسزا سے الگ ایک مستقل مفہوم اورتشخص رکھتی ہے،تاہم 'قتل غیرت' اور غیرت کے جرائم مغربی معاشروں کی اصطلاحیں ہیں،جنہیں Honour Killing یا Crime of Houner وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، گویا یہ جذبہ ہر قوم ومعاشرے میں پایا جاتا ہےتاہم اس حوالے سے جرم وسزا کی نوعیتیں ہر معاشرے میں مختلف ہیں۔ اسلام میں غیرت کے جرائم، جرم وسزا کی کوئی مستقل صنف نہیں، اور نہ ہی اُن کی الگ سے کوئی سزا ہے، بلکہ غیرت کے حوالے سے ہر جرم پراُس کی شدت ونوعیت کے مطابق سزا دی جاتی ہے، مثلاً
[1] فتح الباری:۹؍۳۳۰
[2] جامع ترمذی: ۱۴۲۱
[3] مزید تفصیل کے لیے : الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ: ۳۱؍۳۴۱