کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 79
لیکن اس سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ منافقین یا کافرین کے ساتھ جہاد بالسیف سلطانِ اسلام کی ذمہ داری ہے، گروہ واَحزاب کی ذمہ دا ری نہیں ہے کہ وہ چھوٹے موٹے جتھے بنا کر خود ہی جہاد کرنا شروع کر دیں۔ ان اَحزاب کو سمجھ لینا چاہیے کہ منافقین کے خلاف جہاد کرنا، کفار سے جہاد کرنے سے کم درجہ نہیں رکھتا بلکہ بعض علما نے پانچ وجوہات کی بنا پر قرار دیا ہے کہ منافقین کے خلاف جہاد وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ پہلی وجہ: کفار کے برخلاف جہاد اس وقت فرض ہو جاتا ہے، جب وہ مسلمانوں کے برخلاف جنگ کے منصوبے بنا رہے ہوں یا وہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دیں یا وہ اپنی ماتحت مسلمان اقلیت پر برما کے بدھوں کی طرح ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں اور جب وہ صلح کر لیں یا جزیہ دینا منظور کر لیں تو ان کے ساتھ جہاد موقوف ہو جاتا ہے، جیسے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار قریش کے ساتھ دس سال صلح کر لی تھی جبکہ منافقین کے خلاف جہاد دائمی ہے کیونکہ یہ اسلام کی چار پائیوں اور بستروں میں گھسے ہوئے پسو کی طرح ہر وقت مسلمانوں کا خون پیتے رہتے ہیں۔ جگہ اور طریقہ بدلتے رہتے ہیں۔ دوسری وجہ: منافقین کی دشمنی پوشیدہ ہوتی ہے، اس لیے مسلمان ان کے خلاف اس طرح کمربستہ نہیں رہ سکتے جس طرح کہ وہ کفار کے خلاف کمربستہ رہتے ہیں کیونکہ کفار کی دشمنی علانیہ ہوتی ہے اور مسلمان ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ تیسری وجہ: منافقین مسلمانوں میں شامل ہو کر اُن کی جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی سادگی اور غفلت سے فائدہ اُٹھا کر خود ہی اُنہیں قتل کر دیتے ہیں جس طرح قاتلین عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صفوں میں گھس کر حوارئ رسول حضرت زبیر اور محمد بن طلحہ سجاد اور عمار بن یاسر کو قتل کر دیا تھا جبکہ کفار عموماً باہر سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کا حملہ منافقوں کی اندرونی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔ چوتھی وجہ: منافقین کی عداوت مسلمانوں کا مذاق اُڑانے اور اُنہیں اشاروں، کنایوں اور اُن کی تحقیر سے شروع ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور علانیہ کفار کی حمایت اور اُن کے جھنڈے تلے لڑنے پر ختم ہوتی ہے۔ پانچویں وجہ: کفار کے ساتھ جہاد بسااوقات فرضِ عین ہوتا ہے اور بسا اوقات فرضِ کفایہ، وہ عذر اور اصحابِ عذر سے ساقط بھی ہو جاتا ہے جبکہ منافقین کے ساتھ جہاد کسی وقت اور کسی مرد اور عورت سے