کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 76
اتنی ثابت قدمی سے لڑے کہ تاتاریوں کو دوبارہ شکست سے دوچار ہونا پڑا اور مسلمانانِ بغداد نے ان کا تعاقب کر کے بہت سے تاتاریوں کے سر اُتار لیے اور بعضوں کو قید کرلیا اور پھر وہ اطمینان وسکون سے اپنے خیموں میں آ کر سو گئے۔ اسی دوران اس منافق نے اپنے منافقین کو رات کی تاریکی میں بھیج کر دریائے دجلہ کے ہیڈورکس کے پھٹے گروا کر اس کاپانی بند کر دیا جس کی وجہ سے دجلہ کے بند ٹوٹ گئے اور پانی چھاؤنیوں کے خیموں میں داخل ہو گیا اور دار الخلافہ کے رضاکاروں کے آلاتِ حرب اور گھوڑے پانی میں غرق ہو گئے اور ان میں سے فقط وہی بچا جو اس دلدل سے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چھاؤنی سے باہر نکل آیا۔ اب کی بار ابن علقمی نے ہلاکوخاں کو اپنے گھناؤنے منصوبے کی کامیابی سے آگاہ کیا اور پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ ہلاکو خاں اور اس کالشکر بغیر کسی مزاحمت کے بغداد میں داخل ہو گیا اور اُنہوں نے اس قدر قتل وغارت کی کہ نہ کوئی بڑا بچا، نہ کوئی چھوٹا، جو بھی نہتا سامنے آیا، اس کی گردن تن سے جدا کر کے اُس کی لاش ٹکڑے کر دی۔ پھر ہلاکو خاں نے خلیفہ بغداد کو اس کے بیٹےسمیت اپنے سامنے بلوایا اور ان کو اپنے سامنے لٹا کر اپنے فوجیوں سے اُن کو جوتے مروائے اور پھر خلیفہ کو بوری میں بند کر کے اس کا دھوبی پٹڑا کروا کر قتل کر دیا، پھر وہ دار الخلافہ میں داخل ہوا اور سب کچھ لوٹ کر تمام سرکاری اہل کاروں کو قتل کروا دیا اور چالیس دن تک اُنہیں جو کوئی بغداد میں نظر آیا اسے قتل کروا دیا حتیٰ کہ مقتولین کی تعداد لاکھ نفوس تک پہنچ گئی اور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور ان کی بدبو سے فضا آلودہ ہو گئی اور اس بدبو کے اثرات ملک شام تک جا پہنچے اور بہت سی مخلوق اس وبائی بدبو سے ہلاک ہو گئی۔جب چالیس دن بعد عام معافی کا اعلان ہوا تو گھر وں کے مورچوں میں چھپے لوگ باہر نکلے تو وہ ایک دوسرے کو پہچانتے نہ تھے اور وہ بھی دار الخلافہ بغداد میں پھیلی بدبو اور وبا سے فوراً ہلاک ہو گئے۔بایں طور ہاشمی عباسی خلیفہ کو قتل کروا کر اس منافق رافضی نے اہل بیتِ نبوت کی حکومت ختم کروا دی۔ بعد ازاں ذہین وفطین ہلاکو خاں نے اس منافق کو منافقت کا صلہ دینے کے بہانے اپنے سامنے بلوایا اور کہا اگر ہم اپنی تمام ملکیت بھی تجھے انعام میں دے دیں تو پھر بھی تجھ سے خیر کی توقع نہیں، جب تو نے اپنے ہم قبلہ مسلمانوں کا ہم سے یہ حشر کروایا ہے تو ہم تیرے مذہب کے مخالف ہو کر تجھ سے کس خیر کی توقع رکھیں، ہماری سمجھ میں تو یہی آیا ہے کہ ہم تجھے اس طرح قتل کروا دیں جس طرح ہم نے