کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 72
اُمت آج تک لغتِ قریش پر لکھے جانے والے اسی نسخے کی تلاوت کرتی ہے اور جب ان منافقین نے جن میں عبد الرحمٰن بن ملجم مرادی (قاتل خلیفہ چہارم) بھی شامل تھا، مظلوم خلیفہ کو شہید کر ڈالا تو بڑے فخر سے کہا :اس خلیفہ کے قتل سے تو دو بکریاں بھی نہ ٹکرائیں۔ صحابہ کرام کی اکثریت مملکتِ اسلامیہ کی سرحدوں پر کفار سے برسرپیکار تھی اور باقی ماندہ حج پر گئے ہوئے تھے اور اُنہیں اندازہ نہ تھا کہ یہ دھرنا دینے والے منافق اُس نرم خو اور بےگناہ خلیفہ کو قتل کر دیں گے جن سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔ بہر حال شہادتِ حضرت عثمان سے فتنہ کا دروازہ کھل گیا اور دار الخلافہ کی چابیاں منافقین کے ہاتھوں میں آ گئیں اور اُنہوں نے اپنے تحفظ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منصبِ خلافت سنبھالنے اور اہل مدینہ کو اُن کی بیعت کرنے پر مجبور کر دیا۔ جب آپ نے اُن کے مطالبے پر خلافت کی باگ ڈور سنبھال لی تو ان منافقین نے صوبوں پر اپنی مرضی کے گورنر متعین کروانے شروع کر دیے اور آپ کو کفار سے جہاد کرنے کی بجائے قصاصِ عثمان کے طلب گاروں سے بھڑا کر جنگِ جمل اور جنگِ صفین برپا کروا دی اور بالآخر ان خُبثا نے خلیفہ چہارم کو بھی شہید کر دیا۔ آپ کی شہادت کے بعد جب معاملہ خلافت سیدنا حسن المجتبیٰ کے ہاتھ آیا تو آپ نے ان منافقین کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی اور اُمت میں ایک دفعہ پھر اتحاد قائم ہو گیا اور فتوحاتِ اسلامیہ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ اس دوران کالے سانپ پھربلوں میں گھس گئے جنہیں بڑی حکمتِ عملی سے ایک ایک کر کے نکالا گیا اور قصاصِ عثمان لیا گیا۔ اُموی خلفا کے دور میں منافقین کی چالیں چنانچہ خلافتِ معاویہ بن ابی سفیان میں ان کی دال نہ گلی اور بظاہر ان کا فتنہ دب گیا لیکن جب آپ کی وفات ہوئی تو یہ منافقین پھر سرگرم ہو گئے اور اُنہوں نے سیدنا حسین بن علی کو فتنہ میں مبتلا کر دیا اور عین موقع پر بے وفائی کر کے اپنی ہی تلواروں سے اُنہیں میدانِ کربلا میں شہید کر ڈالا اور پھر توابین بن کر اپنے گناہ کی تلافی کے لیے نکلے اور اپنے ہی بنائے امیر مختار ثقفی کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔ بعد از خرابی بسیار جب ملتِ اسلامیہ امیر المؤمنین عبد الملک بن مروان اُموی قریشی اور اُن کے