کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 70
نہ مانیں گے اور اگر تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بےشک یہ جھوٹ بولنے والے ہیں۔'' اور غزوۂ تبوک کے وقت اُن کی خوشی دیدنی تھی کہ اب مسلمانوں کا ٹکراؤ روم کی سپر طاقت سے ہے جو اُنہیں ملیا میٹ کر دے گی لہٰذا یہ تماشا دیکھنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ چل پڑے جب مسلمانوں کے جرأت مندانہ اقدام کو رومیوں نے دیکھا تو بغیر لڑے واپس لوٹ گئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر واپس آ رہے تھے تو اُنہوں آپ کو پہاڑ سے گرانے کا خوفناک منصوبہ بنایا جو اللہ نے ناکام بنایا اور سورہ توبہ میں ان کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے نازل ہوئی اور یہ جھوٹے عذر پیش کرنے لگے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ حلم اور حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول فرمایا اور سواے تین صادق مؤمنین کے سب کو معاف کر دیا۔ خلافتِ راشدہ میں اہل نفاق کی سرگرمیاں لیکن یہ لوگ حسبِ سابق موقع کی تاک میں بیٹھے رہے اور جونہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانحۂ ارتحال ہوا تو ان منافقین کا نفاق آفتاب نصف النہار کی طرح آشکار ہو گیا اور اُنہوں نے اسلام کے تیسرے رکن زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور بڑی سرعت کے ساتھ منافقین کا نفاق، ارتداد تک پہنچ گیا جس کےلیے خلیفہ اوّل سیدناابو بکر صدیق نے ایسی قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کیا کہ ان کے جہاد فی سبیل اللہ کی برکت سے مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کی کمر ٹوٹ گئی اور اُن کو دوبارہ اسی راستے سے اسلام میں داخل ہونا پڑا جس سے وہ فوج دَرفوج نکلے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو منافقین کے خلاف کھڑا نہ کیا ہوتا تو ان منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کو جزیرۃ العرب میں دفن کر دینا تھا لیکن قربان جائیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فراستِ ایمانی پر کہ اُنہوں نے منافقین کے گھناؤنے منصوبے کو دل کی ایسی آنکھوں سے دیکھ لیا جو دیگر صحابہ سر کی آنکھوں سے بھی نہ دیکھ رہے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کا سارا عرصہ جزیرۃالعرب کو منافقوں سے پاک کرنے میں گزار دیا اور اپنے جانشین(خلیفہ)کی راہ سے سب طرح کے کانٹے دار راستے صاف کر دیے اور اسلام کے قلعے کو آستین کے سانپوں سے پاک کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا مختصر دورِخلافت پوری جانفشانی سے پورا کر کے اعلیٰ علیین میں چلے