کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 7
'غیرت' کی تعریف
عربی زبان کی مشہورِ زمانہ لغات؍ ڈکشنریوں میں غیرت کی تعریف یہ کی گئی ہے:
الْغَيْرَةُ مُشْتَقَّةٌ مِنْ تَغَيُّرِ الْقَلْبِ وَهَيَجَانِ الْغَضَبِ بِسَبَبِ الْمشَارَكَةِ فِيمَا بِهِ الاِخْتِصَاصُ، يُقَال: غَارَ الرَّجُل عَلَى امْرَأَتِهِ مِنْ فُلاَنٍ، وَهِيَ عَلَيْهِ مِنْ فُلاَنَة يَغَارُ غَيْرَةً وَغِيَارًا: أَنِفَ مِنَ الْحَمِيَّةِ وَكَرِهَ شَرِكَةَ الْغَيْرِ فِي حَقِّهِ بِهَا، أَوْ فِي حَقِّهَا بِهِ. [1]
''غیرت دل کی حالت بدل جانے اور غصہ کے سبب ہیجانی کیفیت طاری ہوجانے کو کہتے ہیں، جس کا سبب کسی ایسے شے میں دوسرے کی دخل اندازی ہوتا ہے جس کو انسان اپنے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے۔'' جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آدمی نے اپنی بیوی کے بارے میں فلاں شخص پر غیرت کھائی۔اور فلاں عورت نے فلاں دوسری عورت پر (اپنے شوہر کےبارے میں)غیرت کھائی۔ یہ الفاظ اُسوقت بولے جاتے ہیں جب کسی کی غیرت وحمیّت خاک میں مل جائے اور وہ مرد؍عورت دوسرے شخص کی اپنے حق میں دخل اندازی کو برا جانے۔''
اسلامی شریعت کی رو سے 'غیرت'ایک مبارک اور قابل تعریف وصف ہے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وصف کو اللہ تعالیٰ، اپنے اور نیک مسلمانوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرمایا:
قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرُ مُصْفِحٍ عَنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فَقَالَ: ((أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، فَوَاللّٰهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللّٰہُ أَغْيَرُ مِنِّي، مِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللّٰهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا، وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللّٰہِ ... [2]
وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّهُ لَغَيُورٌ، وَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ. وَاللّٰہُ أَغْيَرُ مِنِّي
''صحابی رسول سعدبن عبادہ نے کہا کہ اگر میں نے کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ پالیا تو میں تلوار کی دھار سے اس کا خاتمہ کردوں گا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: لوگو! کیا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہے؟ اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ غیرت
[1] لسان العرب وتاج العروس زیر مادہ،فتح الباری :۹؍۳۲۰
[2] صحیح مسلم، باب القضاء عدة المتوفی عنہا زوجہا، رقم ۱۷