کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 69
السَّوءِ ۗ وَاللّٰہُ سَميعٌ عَليمٌ ﴾ [1] ''اور (منافق) بدویوں میں ایسے بھی ہیں جو(فی سبیل اللہ ) خرچ کو تاوان سمجھتے ہیں اور تمہاری شکست کے انتظار میں ہیں، انہیں پر بڑی مصیبت ہے اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔'' اور اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کا بطورِ خاص ذکر کر کے آگاہ فرمایا کہ اس پاک شہر میں بھی ان منافقوں کا ناپاک وجود ہے، لہٰذا پاک طینت مؤمنوں کو ان خبثا سے ہوشیار رہنے کی بڑی ضرورت ہے۔ سورۃ توبہ میں ہے: ﴿ وَمِمَّن حَولَكُم مِنَ الأَعر‌ابِ مُنٰفِقونَ وَمِن أَهلِ المَدينَةِ مَرَ‌دوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعلَمُهُم نَحنُ نَعلَمُهُم سَنُعَذِّبُهُم مَرَّ‌تَينِ ثُمَّ يُرَ‌دّونَ إِلىٰ عَذابٍ عَظيمٍ﴾ [2] ''اور تمہارے اردگرد کے بدویوں میں منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی ایسے ہیں جو نفاق پر جمے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں نہیں جانتے، ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر وہ دردناک عذاب کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔'' یہ منافقین اپنی طبعی بزدلی کی وجہ سے سچّے مسلمانوں سے ٹکر لینے کی سکت نہ رکھتے تھے، اس لیے یہ اس انتظار میں رہتے کہ کاش کوئی طاقت ان کے خلاف سر اُٹھائے تو ہم پیچھے بیٹھ کر ان کی شکست اور ذلت دیکھ کر اپنی آتش حسد کو بجھا سکیں، چنانچہ جب ان کو پتہ چلا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی یہود بنو قینقاع اور بنو نضیر کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں تو اِنہوں نے اُن کو مناصرت کا جھوٹا یقین دلایا جس کاذ کر قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہے کہ ﴿أَلَم تَرَ‌ إِلَى الَّذينَ نافَقوا يَقولونَ لِإِخوٰنِهِمُ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن أَهلِ الكِتٰبِ لَئِن أُخرِ‌جتُم لَنَخرُ‌جَنَّ مَعَكُم وَلا نُطيعُ فيكُم أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قوتِلتُم لَنَنصُرَ‌نَّكُم وَاللّٰہُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكٰذِبونَ﴾ [3] ''کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کفار اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کی بات
[1] سورةالتوبہ: ٩٨ [2] سورة التوبہ: ١٠١ [3] سورة الحشر: ١١