کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 65
''انکی آپس میں شدید لڑائی ہے۔ آپ انہیں اکٹھا سمجھتے ہیں، جبکہ ان کے دل مختلف ہیں۔'' قرآنِ مجید بالکل عیاں طور پر ایسی جمعیت یا پلیٹ فارم کی نفی کر رہا ہے جو محض جسموں کو جمع کرنے کے لیے وجود میں آئے جبکہ ان کی فکر جدا جدا ہو۔ ۸۔ یہ دوریاں اورگروہ بندیاں بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید ناراضی کا سبب اورشیطان کی طرف سے ہیں۔ ۹۔ گروہ بندی یا تفرقہ بازی کرنے والا وہ ہے جو صحیح اسلام سے ہٹ کر کوئی نیا تصور دیتا ہے اور نئی جماعت اور نیا پلیٹ فارم بناتا ہے۔ جو بغیر کسی لیبل کے اصل اسلام کو اپنائے ہوئے ہے، وہ گروہ بندی میں نہیں آتا۔اور اصل اسلام کی وضاحت گزشتہ احادیث میں گزر چکی ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے پر گامزن ہیں، وہی الجماعۃ اورجماعتِ ناجیہ ہیں۔ بہت سے لوگ ایک خاص نقطہ نظر کے حامل اور خاص طریقے سے عمل کرنے والے ہوتے ہیں مگر وہ اپنے طور پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم کسی گروہ میں نہیں۔ایسی سوچ ان کے راہ حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ جادہ حق، کتاب وسنت کی اتباع ہی ہے۔ ۱۰۔ فرقہ بندی عموماً دینی معاملات میں سامنے آتی ہے، اس لیے دین میں افتراق کو ناجائز کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ سیاسی وسماجی سطح پر جتنے مرضی گروہ بنا لیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو چند لمحوں کے لیے بھی علیحدہ بیٹھنے کو نامناسب سمجھا ہے۔تاہم مختلف مقاصد کے لیے مختلف افراد متوجہ ویکسو ہوکر سماجی جدوجہد کرسکتے ہیں، اور ایسی تحریکوں کا باہمی تعلق ایک دوسرے کی تائید اور محبت واپنائیت کا ہونا چاہیے، وہ سب اللہ کے راستے کے راہی اور حبل اللہ سے منسلک ہیں، باہمی افتراق اور تعصّبات پراُنہیں کسی طور گامزن ہونے سے بچنا ہوگا۔ ۱۱۔ مسلمانوں کا باہمی تعلق محبت اخوت سے سرشار ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک طرف اتحاد بین المسلمین کے نعرے ہوں اور دوسری طرف اغیار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی بیخ کنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں۔اس رویے کو اہل اسلام کی دینی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت یعنی حکمرانوں کو بھی اختیار کرنا ہوگا۔کہ وہ ملکوں کے نام پر ملت اسلامیہ کے مفادات کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے اسیر بن جائیں اور اس طرح افتراق کو قائم کردیں، تو یہ رویے بھی