کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 64
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے یہ معاملہ آپ کے گوش گزار کیا تو آپ کے چہرہ انور پر ناپسندیدگی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور فرمانے لگے: ((كِلَا كُمَا مُحْسِنٌ وَلَا تَخْتَلِفُوْا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوْا فَهَلَكُوْا)) [1] ''تم دونوں ہی ٹھیک پڑھ رہے ہو اور آپس میں اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے بھی باہمی اختلاف کیا تو وہ ہلاکت سے دوچار ہو گے۔'' یہ تو الفاظ کا فرق تھا اور دونوں قراءتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے پڑھائی تھیں، پھر بھی اس قدر متنبہ فرمایا تو کیا خیال ہے جو مفہوم کے فرق سے آپس میں جدا جدا ہو جاتے ہیں اور اسے ہوا دیتے ہیں اور نفرتوں کے بیج بوتے ہیں۔ ۶۔ آپ احادیث پڑھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو وقتی طور پر بھی علیحدہ علیحدہ بیٹھنے کو مناسب نہیں سمجھا۔ ایک ہی مسجد ہے،ایک ہی ذہن کے لوگ ہیں اور ایک ہی عمل کو اختیار کرنے والے ہیں۔ درمیان میں کوئی دیوار نہیں کھڑی کی،ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہیں ہے۔ نہ دلائل کا تبادلہ نہ مناظرے کا خیال، نہ مجادلہ کی کیفیت...!!! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَالِيْ أَرَاكُمْ عِزِيْنَ)) [2] ''مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں بکھرا ہوا دیکھ رہا ہوں۔'' ہمارا فسادِ فکر ونظر یہ ہے کہ افتراق وانتشار پیدا کرنے والی ہر چیز کو سرفہرست رکھ کر اسے ہی عین اسلام سمجھا جانے لگا ہے۔ ۷۔ جب قرآن مجید کے بیان کردہ اتحاد واتفاق اور اخوت کے مفہوم میں دلوں کا ملنا ضروری ہے تو پھر دل سے متعلقہ تمام معاملات کا متفق ہونا ضروری ہے۔ مثلاً دل ایک ہے تو فکر بھی ایک ہو، سوچ بھی ایک ہو۔ یہ کوئی ایسا جمگھٹا یا ظاہری اکٹھ نہ ہو کہ لوگ تو ایک جگہ جمع نظر آئیں مگر افکار ونظریات ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دوسری اقوام کے ذکر میں فرمایا ہے: ﴿بَأسُهُم بَينَهُم شَديدٌ ۚ تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ﴾[3]
[1] صحیح بخاری: ۳۲۸۹ [2] صحیح مسلم: ۴۳۰ [3] سورة الحشر:۱۴