کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 63
جو مسلمان اسے تھامے ہوئے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اور کسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں وہ متحد سمجھے جائیں گے، خواہ ان پر کوئی لیبل نہ بھی لگا ہو، اس کے برعکس ظاہری طور پر ایک ہی جماعت سے منسلک لوگ اگر 'حبل اللہ ' کو نہیں تھامتے تو قرآن کی رو سے وہ متحد نہیں ہیں بلکہ 'مفترق' (بکھرے ہوئے) ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اتحاد برائے اتحاد کوئی شرعی تقاضا نہیں، کہ کسی بھی نظریاتی وحدت کے بغیر برائے نام اتحاد کرلیا جائے، بلکہ اس اتحاد کا ایک مرکزومحور ہے جو قرآن وسنت، اللہ کی شریعت، اور حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی ہے۔اور یہی بات قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جیسا کہ ﴿وَاعْتَصِمُوْا بحَبْلِ اللّٰہِ ﴾ سے واضح ہے۔ ۳۔ وہی شرعی اتحاد کہلائے گا جس میں ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)) [1] کے ضابطے کا خیال رکھا جائے گا۔ ۴۔ سابقہ قوموں میں اختلاف اس وقت رونما ہوا جب اُنہیں علم سے نوازاگیا۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَمَا تَفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾[2] ''اور وہ آپس میں جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کےبعد جب ان کے پاس علم آ گیا۔'' ہونا تویہ چاہیے تھا کہ علم کی وجہ سے اختلاف وافتراق ختم ہو مگر راستے سے ہٹی قوموں نے اسے ہی افتراق و انتشار کا باعث بنا لیا اور اُمتِ مسلمہ بھی ان کی پیروی میں کسی سے کم نہیں۔گویا خود ساختہ، انسانی نظریات مفادات کے سانچوں کے ڈھلے ہوتے ہیں، ان کی بنا پر کبھی حقیقی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ ۵۔ قرآن مجید میں باہمی افتراق اور فرقہ بندی کے لیے 'تفرق' کا مادہ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں جان بوجھ کر جدا جدا ہونا،جدا ہونے کے لیے کوشش کرنا،دلائل تلاش کرنا،عصبیت کو ابھارنا اور مختلف فیہ امور کو ہوا دینا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب بھی کوئی ایسی بات آئی جس میں گروہ بندی کا یا باہمی اختلاف کا خدشہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کسی شخص سے قراءت سنی تو وہ اس سے مختلف تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود سنی تھی۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو
[1] جامع ترمذی: ۲۶۴۱، باب ماجاء فی افتراق الامۃ قال الالبانی: حسن [2] سورۃ الشوریٰ: ۱۴