کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 62
دوسرے کی توہین وتنقیص اور اپنے گروہ کے غلبہ وعظمت کے فساد کا شکار نہیں تھے۔ اتحاد کے شرعی مفہوم سے ماخوذ نکات اتحاد کے شرعی مفہوم کے تحت حسبِ ذیل نکات آتے ہیں: ۱۔ مذکورہ آیات میں الّف کے الفاظ ہیں۔ یہ لفظ 'تالیف'سے ہے جس کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں۔جب اس کے ساتھ 'قلوب' کا لفظ آ ئے گا تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ دل باہم جڑے ہوئے ہوں۔ دلوں میں نفرت نام کی چیز نہ ہو، اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی ہو۔گویا وہ اتحاد اتحاد نہیں ہے جس میں دل جدا جدا ہوں کیونکہ جب دیواروں میں دراڑیں پڑ جائیں تو دیواریں گر جاتی ہیں اور دلوں میں دراڑیں آ جائیں تو دیواریں بن جاتی ہیں۔ ۲۔ 'اعتصموا' کا قرآنی لفظ بھی اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی رسّی کو ایسی مضبوطی سے تھام لیا جائے کہ گرنے کا یا راہ سے ہٹنے کا خدشہ نہ رہے کیونکہ اعتصام کے حقیقی معنیٰ رُک جانے اور بچ جانے کے ہیں۔ آپ اگر اپنے بچاؤ کےلیے کسی رسّی کو تھامتے ہیں تو اسے کس قدر مضبوطی سے پکڑیں گے!! آپ کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ یہ رسی چھوٹی نہیں اور میں گرا نہیں۔ ایسے حالات میں لمحہ بھر کے لیے بھی آپ اس رسی کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح فرقہ بندی کے گڑھے میں انسان اسی وقت گر سکتا ہے جب اس نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھاما ہو۔ انسان کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے صرف ایک ہی رسی ہے اور وہ 'حبل اللہ ' ہے۔ اسے تھامنے کے لیے اپنے ہاتھ بالکل خالی کرنے پڑتے ہیں۔ اگر پہلے سے ہاتھ میں کچھ ہو گا تو اس رسّی پر گرفت اسی قدر کمزور ہوتی چلی جائے گی اور اس رسی کے چھوٹنے کا خدشہ بڑھ جائے گا اور اتحاد اسی صورت میں ممکن ہے جب سب لوگ اپنی اپنی رسیاں اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیزیں چھوڑ کر، انہیں توڑ کر صرف اس رسّی کو تھام لیں گے۔ جو اس رسی سے منسلک ہو گیا وہ اتحاد کا داعی ہے اور امن کا خوگر ہے، جو اس سے وابستہ نہیں ہوا وہ لاکھ کہے مگر وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں قرآنِ مجید کو واضح طور پر اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے۔[1]
[1] صحیح مسلم: ۲۴۰۸