کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 61
ہو گی۔ ان میں ۷۲ جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں۔ اور جنت میں جانے والے وہ ہیں جو (بٹے نہیں بلکہ) جماعت کی صورت میں ہوں گے۔'' یہ الجماعة کو ن ہے؟ مذکورہ حدیث کے دوسرے طریق میں اس کی وضاحت یوں آئی ہے : ((...وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)) [1] ''اورمیری امت تہتّر فرقوں میں بٹے گی،ایک کے سوا سب جہنمی ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ (جنت کے حق دار)کون ہیں؟ فرمایا: ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)) ''جس (طریقے) پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔'' اتحاد کا شرعی مفہوم مذکورہ آیات اور احادیث کا جائزہ لیں تو اتحاد و وحدت کا یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے سے اُلفت ومحبت سے سرشار دِلی تعلق ہو۔ سب اپنے اپنے جھنڈوں اور اپنے اپنے بڑوں کو چھوڑ کر قرآن وسنت کے نیچے جمع ہو جائیں۔ سب کی ایک ہی سوچ ہو کہ محض قرآن وسنت کی اطاعت اور اتباع ہی کرنی ہے اور اختلافات کا حل بھی کتاب اللہ اور رسول ہی سے کیا جا سکتا ہے اور سب اپنی اپنی رسّیاں چھوڑ کر اللہ کی رسی کو تھام لیں۔ اللہ عزّوجلّ کی رسی کو تھامنے کے لیے پہلے اپنے ہاتھ خالی کرنے ہوں گے، یعنی پہلے سے موجود عقائد ونظریات کو چھوڑنا پڑے گا۔ اگر کسی کا اجتہاد مختلف ہے تو اس سے مسلمانوں کی جمعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس کو اس کا اجتہاد سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔صحیح اجتہاد کرنے والے کو دو اجر او راجتہاد میں خلوصِ نیت اور علم کے باوجود غلطی کرنے والے کو ایک اجر ملتا ہے۔ فہم کا اختلاف اپنی حد تک رہتا ہے، نہ یہ کہ اس کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ مساجد اور جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔ عہدِ صحابہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کے باعث علیحدہ مساجد نہیں بنتی تھیں، نہ مسلک ومشرب وجود میں آتے تھے کیونکہ وہ اتحاد واتفاق کے مفہوم اور اس پر قرآن وسنت کی تعلیمات سے بخوبی آشنا تھے۔وہ علمی اختلاف کو فہم واستدلال تک محدود رکھتے، اس بنا پر تفرقہ بازی، تعصّب پروری،
[1] جامع ترمذی: ۲۶۴۱، باب ماجاء فی افتراق الامۃ قال الالبانی: حسن