کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 6
۲۹؍مئی ۲۰۱۴ء کو لاہور میں فرزانہ نامی حاملہ خاتون کے قتل کا المناک واقعہ پیش آیا۔ جڑانوالہ کی رہائشی فرزانہ کو گھر سے بھاگ کر اپنے آشنا محمد اقبال کے ساتھ عشق کی شادی کرنے کی پاداش میں اس کے اقربا نے لاہور ہائیکورٹ کے باہر اینٹیں مار مار کر قتل کردیا۔ اس بہیمانہ واقعہ کو امریکی وزراتِ خارجہ، برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نیوی پیلے نے انتہائی شرمناک قرار دیتے ہوئے، اس بارے سخت کاروائی اور فوری قانونی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزیر اعظم پاکستان نے اس قتل پر نوٹس لیتے ہوئے اس کی رپورٹ ایک دن کے اندر اندر پیش کرنے کی ہدایت کی۔ بعد کے دنوں میں ملک سیاسی انقلابی دھرنوں کی زَد میں رہا۔ آخر کار اکتوبرمیں شعبۂ ترقی نسواں،حکومتِ پنجاب Women Development Department کی تحریک پر ایک اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس سمت مناسب قانون سازی تجویز کرے گی۔ اس کمیٹی میں پانچ ممبران صوبائی اسمبلی کے علاوہ، تین صوبائی محکموں (وزراتِ داخلہ، قانون، ترقی نسواں) کے سیکرٹری حضرات، آئی جی پولیس کے ساتھ چاروں مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماے کرام (مولانا محمد راغب نعیمی، ڈاکٹر محمد حسین اکبر، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی اور راقم الحروف) پر ایک وسیع تر کمیٹی تشکیل دی گئی جو جناب رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں فوری بنیادوں پر میٹنگیں منعقد کرکے، اس شرم ناک سلسلے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی تجاویز پیش کرے گی۔
کمیٹی کے پہلے اجلاس منعقدہ ۱۱ نومبر ۲۰۱۴ء جو پنجاب اسمبلی کے میٹنگ روم نمبر۱ میں ہوا، میں علماے کرام سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر پیش کریں، تاکہ اس کی روشنی میں قانون سازی کی طرف پیش قدمی کی جاسکے۔ ذیل میں اس سلسلے میں راقم الحروف کا موقف ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے، جو حکومتی کمیٹی کے ارکان کو بھی پیش کردیا گیا ہے :
اس سلسلے کی پہلی میٹنگ میں درج ذیل سوالات اُبھر کر سامنے آئے ...
۱۔ 'غیرت' کی تعریف کیا ہے اور غیرت کے جرائم کونسے ہیں؟
۲۔ کیا غیرت کے نام پر قتل کو 'قتل عمد' قرار دیا جاسکتا ہے؟
۳۔ غیرت کے نام پر قتل میں ورثا سے معافی کا حق سلب کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۴۔ اس جیسے واقعات کی روک تھام شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں کیوں کر ممکن ہے؟