کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 57
''میری قوم! اس (بچھڑے) سے تمہاری آزمائش ہوئی ہے تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، لہٰذا تم میری اتباع کرو اور میرا حکم مانو۔'' مگر یہ اتحادی تو ایسا نہیں کرتے کیونکہ اس طرح ظاہری اتحاد کو دھچکا لگتا ہے۔اس دوران حضرت ہارون نے نہ تو حقیقی دعوت سے توقف کیا بلکہ دعوت توحید سے دائمی دستبرداری اختیار کرنے کے بجائے، اس کو سیدنا موسیٰ کی آمد تک موقوف کیا تاکہ بات پورے اعتماد اور وزن کی ساتھ کی جائے۔ پانچویں دلیل: ۱۴۰۰ سال ہو گئے ہیں، یہ اختلافات حل نہیں ہوئے۔ کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ ہم کسے صحیح کہیں اور کسے غلط۔ لہٰذا ہمیں ایسی بحث میں پڑنا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا اختلافی مسائل کو زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔ اوروہ توحید کوبھی ایک متنازعہ نظریہ کے طورپر سمجھ کر بھی بات نہیں کرنے دیتے۔ جائزہ: اختلافات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن کی سطح اور ایمان وعلم کا معیار بھی ایک جیسا نہیں۔ ان اختلافات کو دبا کر رکھنا اور انہیں اپنی تحقیق وتجسس سے حل نہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے راکھ میں ایک چنگاری سلگتی رہنے دی جائے، پھر جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ بھڑک اُٹھتی ہے۔ اختلافات کو قرآن وسنت کی روشنی میں دبانے کی نہیں حل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّ‌سولِ﴾[1] ''اگر تمہارا کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس معاملے کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔'' جس سے واضح ہوتا ہے کہ اختلافات حل کرنے چاہئیں، نہ یہ کہ دبائے جائیں۔ اختلاف کو حل نہ کرنا بلکہ دبا دینے سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص زندگی بھر شک کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کونسا موقف درست ہے اور کونسا غلط...!! دوریاں اور نفرتیں اختلافات حل کرنے سے ختم ہو تی ہیں، نہ کہ اختلافات دبانے سے۔ چھٹی دلیل: ﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللّٰهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّ‌قوا﴾ [2]
[1] سورة آل عمران: ۱۰۳ [2] سورة آل عمران: ۱۰۳