کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 56
اس مزعومہ اتحاد کےلیے دلائل بھی وہ لیے جاتے ہیں جو یہود ونصاریٰ سے معاملات کی بابت آئے ہیں۔ کیا اُس عہد میں مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق نہیں تھا؟ اس جیسی صفات کیوں نہیں پیدا کی جاتیں اور صحیح اسلامی اتحاد کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی!! تاہم صحیح موقف کو زبردستی منوانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بس احقاقِ حق ہونا چاہیے، باقی ہدایت تک پہنچانے کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چوتھی دلیل: سیدنا موسیٰ، سیدنا ہارون کو بنی اسرائیل پر نگران بنا کر چنیدہ آدمیوں کو لے کر کوہِ طور پر گئے۔ جو بنی اسرائیل پیچھے رہ گئے تھے وہ سامری کے کہنے پر بچھڑے کی محبت میں پھنس گئے اور یہاں تک کہنے لگے: ﴿قالوا لَن نَبرَ‌حَ عَلَيهِ عٰكِفينَ حَتّىٰ يَر‌جِعَ إِلَينا موسىٰ ﴾[1] ''موسیٰ کی واپسی تک ہم اسی کے مجاور بنے رہیں گے۔'' موسیٰ علیہ السلام آئے تو اُنہوں نے ہارون سے پوچھا: ﴿قالَ يٰهٰر‌ونُ ما مَنَعَكَ إِذ رَ‌أَيتَهُم ضَلّوا ()أَلّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيتَ أَمر‌ى ﴾[2] ''ہارون! جب تم نے دیکھا کہ وہ بھٹک گئے ہیں تو تمہیں کس چیز نے (اُنہیں روکنے سے) منع کیا تھا؟ کہ تم نے میری اتباع نہیں کی اور میری نافرمانی بھی کی۔'' سیدنا ہارون علیہ السلام نے کچھ باتوں کے بعد یہ جواب دیا: ﴿إِنّى خَشيتُ أَن تَقولَ فَرَّ‌قتَ بَينَ بَنى إِسرٰ‌ءيلَ﴾[3] ''بےشک مجھے خدشہ تھا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی ہے۔'' اس واقعے سے مزعومہ اتحاد کے داعیان کا استدلال یہ ہے کہ ہارون نے اس خدشے سے کہ قوم پھٹ نہ جائے، اُنہیں بچھڑے کی عبادت کرنے دی، لہٰذا اتنے بڑے اورعظیم مقاصد کی خاطر اگر کچھ عقائد ونظریات دبا لیے جائیں اور ان کا اظہار نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ جائزہ: ہارون نے احقاقِ حق کیا اور انہیں روکا بھی اور ان سے کہا: ﴿يٰقَومِ إِنَّما فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَ‌بَّكُمُ الرَّ‌حمٰنُ فَاتَّبِعونى وَأَطيعوا أَمر‌ى﴾[4]
[1] سورة طہ: ۹۱ [2] سورة طہ: ۹۲۔ ۹۳ [3] سورة طہ: ۹۴ [4] سورةطہ:۹۰