کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 55
دوسرے یہ کہ آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے جس بات پر متفق ہونے کا کہا ہے، مسلمان تو پہلے ہی سے اس سے مکمل اتفاق کرتے تھے کہ محض اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ یہاں تو عیسائیوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ بھی یہی صحیح عقیدہ اختیار کر لیں۔ اس آیت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دین میں مداہنت کا درس نہیں دیا گیا۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی عیسائی رہیں اور ایک نقطے پر مسلمانوں سے متحد ہو جائیں۔جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے : ((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ)) [1] ''قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! میری اُمت میں کوئی یہودی اور نصرانی میرے بارے میں سن کر، اس حالت میں فوت ہوجائے کہ وہ مجھ پر ایمان نہ لایا ہو، تو وہ آگ والوں میں سے ہے۔'' جبکہ ہمارے ہاں اس اتحاد کے دعوے کا مطلب ہی یہی ہے کہ کسی کا موقف درست بھی ہے تو وہ اسے اپنے تک رکھے، دوسروں کو اس کی دعوت نہ دے، حالانکہ آیت میں موجو د "تَعَالَوا" کا لفظ اس کی مکمل نفی کر رہا ہے۔ تیسری دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے معاہدے کیےتھے، ہمیں بھی ایک دوسرے سے امن کے معاہدے کرنے چاہئیں اور کامل اتحاد سے رہنا چاہیے۔ جائزہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہود سے معاہدوں کی نوعیت معاشرتی تھی۔ رہن سہن اور ایک دوسرے سے تعلقات کے متعلق تھی۔ دین کے حوالے سے تو قرآن مجید کی واضح تعلیمات ہیں: ﴿لَكُم دينُكُم وَلِىَ دينِ﴾[2] ''تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔'' جبکہ مزعومہ اتحاد دین کو مسخ کر کے ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ دین کی تعلیمات، مثلاً امر بالمعروف ونہی المنکر بھی ہو اور یہ نام نہاد اتحاد بھی قائم رہے، ایسا ممکن ہی نہیں!
[1] صحيح مسلم: حدیث نمبر ۲۴۰، باب وجوب ايمان اہل الكتاب برسالۃ الاسلام [2] سورةالكافرون : ٦