کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 54
پہلی دلیل: امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اتحاد کی یہ صورت قائم رہے، وگرنہ فساد ہو گا اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوں گے۔ جائزہ: کیا ایسا ممکن ہے کہ دو علیحدہ نظریات کے لوگ اپنے ہم نواؤں میں اپنے نظریے کا پرچار اور دوسرے کے نظریے پر بات نہ کریں؟ یہی وجہ ہے ے کہ اب تک اس اتحاد کی جتنی بھی کاوشیں ہوئی ہیں، وہ جزوقتی اور بےنتیجہ رہیں۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور بعد کے دور میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی یہی صورت تھی...؟ مگر امن تو پھر بھی قائم تھا اور مثالی اُخوت ومحبت تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے محفوظ رکھنے کی دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے قبول[1] نہ فرمایا۔ لہٰذا باہمی اتحاد کی کوشش تو کی جا سکتی ہے مگر ہر مسئلے کا حل اس خود ساختہ اتحاد کو سمجھ لینا کافی نہیں، اُمت میں دراڑ رہے گی اور یہ امت محمدیہ ٹکڑوں میں بٹی رہے گی۔ جو لوگ اس اتحادی قافلے کے سرخیل ہیں، جب ان کی طبع نازک پر کچھ گراں گزرتا ہے تو فوراً اس اتحاد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور مفادات کی حد تک ساتھ منسلک رہتے ہیں۔ دوسری دلیل: اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا: ﴿قُل يٰأَهلَ الكِتٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللّٰهَ وَلا نُشرِ‌كَ بِهِ شَئًا[2] ''کہہ دیں! اے اہل کتاب آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو بھی نہ ٹھہرائیں۔'' مذکورہ اتحاد کے داعیوں کا کہنا ہے کہ جب غیر مسلموں سے مکالمے کی بات ہو سکتی ہے اور اُنہیں ایک نقطے ؍کلمہ پر جمع کیا جا سکتا ہے تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں؟ جائزہ: آیتِ مذکورہ میں اہل کتاب کو دعوت ہے۔ جس شخص نے اسلام قبول کر لیا ہو یا مسلمان چلا آ رہا ہو تو اسے اپنا ذہن، سوچ، فکر، عقیدہ اور نظریہ سب کچھ پہلے ہی سے اسلام کے تابع کرلینا چاہیے۔ اس سے مکالمے کی بات کیسی...؟
[1] صحیح مسلم:۲۸۹۰ [2] سورة آل عمران: ٦٤